مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی کشمکش

   
۱۸ اکتوبر ۲۰۱۹ء

وزیراعظم عمران خان ان دنوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کے مشن پر ہیں اور انہوں نے پہلے تہران اور پھر ریاض جا کر دونوں ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اور سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے مصالحت کی پاکستانی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جو کہ ایک اچھی علامت ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعات کا بنیادی پس منظر جاننے کے لیے مشرق وسطٰی میں جاری شیعہ سنی کشمکش کی صورتحال پر ایک نظر دوڑانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں پانچ سال قبل لکھی گئی یہ تحریر شاید قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنے۔ ان پانچ برسوں کے دوران مشرق وسطٰی میں جو تبدیلیاں آچکی ہیں وہ اس تحریر کے مندرجات کی روشنی میں زیادہ واضح انداز میں دیکھی جا سکتی ہیں:

ثنا نیوز کے حوالہ سے ۲ اپریل کو ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ملک کی داخلی سیاست میں مداخلت کا سلسلہ بند کر دے۔ صدر منصور نے پان عرب روزنامہ ’’الحیات‘‘ کے ساتھ انٹرویو میں ایران پر جنوبی یمن میں علیحدگی پسندوں اور شمالی یمن سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے جو ان کے بقول ان کے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بد قسمتی سے ایران کی مداخلت جاری ہے، خواہ یہ حراک علیحدگی پسندوں کی حمایت کی صورت میں ہے یا شمالی یمن سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی حمایت ہے‘‘۔ ان کا واضح اشارہ شمالی یمن سے تعلق رکھنے والے حوثی باغیوں کے لیے ایران کی حمایت کی جانب تھا۔ گزشتہ روز شائع ہونے والے اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اپنے ایرانی بھائیوں سے یمن میں غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے کہا ہے لیکن ہمارے مطالبات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ہم ایران سے کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے لیکن اس کے ساتھ ہم اس سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ یمن سے اپنا ہاتھ کھینچ لے‘‘۔

ایران ماضی میں متعدد مرتبہ یمن میں مداخلت کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے لیکن یہ یمن ہی نہیں ہے جو اس پر ایسے الزام عائد کر رہا ہے بلکہ سعودی عرب اور امریکہ بھی اس پر یمن کی داخلی سیاست میں مداخلت اور خاص طور پر حوثی اہل تشیع کی حمایت کے الزام عائد کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال یمن نے اپنے علاقے میں اسلحے سے لدے ایک بحری جہاز کو پکڑنے کی اطلاع دی تھی اور کہا تھا کہ اس کے ذریعے دھماکہ خیز مواد اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل یمن میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم ایران نے اس اسلحے سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کر دیا تھا۔‘‘

ثنا نیوز کی یہ تفصیلی خبر اس صورت حال کی صرف ایک جھلک ہے جو مشرق وسطیٰ بلکہ عالم اسلام میں سنی شیعہ کشیدگی کے حوالہ سے دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے اور جس کے متوقع مستقبل کے حوالہ سے ارباب فکر و دانش کی تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شیعہ سنی کشیدگی کا یہ تناظر صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ پاکستان بھی اس کے دائرے میں شامل ہے، حتیٰ کہ مشرق بعید کے بعض ممالک سے آنے والی بعض خبریں اس کے اثرات وہاں تک وسیع ہونے کے امکانات بھی پیش کر رہی ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں اس کشیدگی کا واقعاتی تناظر یہ ہے کہ شام میں اس وقت حکومت اور باغیوں کے درمیان جو جنگ جاری ہے وہ زیادہ تر سنی شیعہ کشیدگی کا پس منظر رکھتی ہے۔ کویت میں گزشتہ انتخابات میں سنی شیعہ بنیادوں پر پارلیمنٹ میں جو تناسب سامنے آیا اور اس کے بعد حکومتی سطح پر جو اقدامات دکھائی دیے وہ اس کشیدگی کی موجودگی اور کویت کی قومی سیاست میں اس کی اثر خیزی کی غمازی کرتے ہیں۔ عراق کو سنی شیعہ بنیادوں پر مختلف ریاستوں میں تقسیم کر دینے کی تجویزیں بین الاقوامی حلقوں میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ لبنان میں دستور کے دائرے میں یہ تقسیم موجود ہے اور عوامی شعبوں میں اس کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا ہے۔ بحرین میں سنی شیعہ آبادی کے تناسب اور اس کے سیاسی عواقب کی بات اس اب تجزیوں اور تبصروں سے بڑھ کر اس کے عملی اظہار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جبکہ خود سعودی عرب کے داخلی ماحول میں بھی اس کی تپش کا درجہ حرارت کم کرنے کی تدبیریں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اردن کے شاہ عبد اللہ نے چند سال قبل یہ کہا تھا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں ’’شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں‘‘، جبکہ عرب ممالک کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہوئے یہ بات خلاف واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں شام کی موجودہ خانہ جنگی ان تمام حوالوں سے سنی شیعہ کشیدگی کا سب سے بڑا مرکز اور مورچہ بنتی جا رہی ہے اور دونوں طرف کی قوتیں اپنا سارا زور اسی مورچے پر صرف کر دینے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم دونوں میں سے کوئی بھی اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اس کے اثرات سے بچنا ہمارے لیے ممکن ہے۔ آج کے سیاسی حلقوں میں اسے سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار سے تعبیر کیا جا رہا ہے جو معروضی حالات میں غلط بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ پورے خطے میں سنی حلقوں کو فطری طور پر سعودی عرب کی طرف سے کسی حمایت یا تعاون کی توقع ہو سکتی ہے اور شیعہ گروہوں کو ایران کی سپورٹ حاصل ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ آخر دونوں طرف سے کسی نہ کسی نے تو قیادت اور نمائندگی کرنی ہی ہے۔

اصل بات غور کرنے کی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی جو رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اس کا مستقبل کیا ہے اور اس میں دونوں طرف کے نفع و نقصانات کے امکانات کا تناسب کیا ہے؟ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں طرف کی مذہبی روایات کی رو سے حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کا زمانہ قریب نظر آرہا ہے اور چونکہ ان کا ظہور شام کے علاقہ میں ہونا ہے اس لیے شام اس کشمکش کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور دونوں حلقوں میں آخری زور آزمائی اسی علاقہ میں وقوع پذیر ہوتی نظر آرہی ہے۔

کچھ حضرات کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی مزعومہ بالادستی کو تحفظ دینے کے لیے عالمی استعماری قوتوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اس خطہ میں سنی شیعہ کشیدگی کی آگ کو مسلسل ہوا دیتے رہیں تاکہ دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں مل کر اسرائیل کے لیے حقیقی چیلنج کی صورت اختیار نہ کر سکیں۔ جبکہ یہ کہنا بھی تاریخی پس منظر کے حوالہ سے شاید غلط نہ ہو کہ ایک طرف ایران کو ماضی کی فاطمی حکومت کی یاد ستانے لگی ہے اور دوسری طرف ترکی کو خلافت عثمانیہ کا دور پھر سے یاد آرہا ہے اور دونوں طرف کی دھیرے دھیرے پیش رفت درمیان کی بہت سی قوموں اور ملکوں کو پریشان کر رہی ہے۔

اس پس منظر میں ایک بات دونوں کے سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ہے کہ ان کی یہ مسلسل بڑھتی ہوئی کشمکش عالمی استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل اور اسرائیل کے استحکام و تحفظ کا ایک بڑا ذریعہ تو ثابت نہیں ہوگی؟ اور دوسری بات اہل سنت کے ارباب فکر و نظر کی توجہ کی طالب ہے کہ مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں اہل تشیع کی بڑھتی ہوئی فکری، سیاسی، علمی اور معاشرتی سرگرمیاں اور گہری منصوبہ بندی اہل سنت کی واضح اکثریت کے لیے خطرات و خدشات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے موجودہ سیاسی و معاشرتی مقام و حیثیت کے لیے چیلنج تو نہیں بن جائے گی؟ یہ باتیں سوچنے کی ہیں، انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مجھے معاف رکھا جائے کہ اہل سنت کے حقوق و مفادات کے لیے مصروف کار موجودہ سیٹ اپ اور نیٹ ورک اس کے فکری و عملی تقاضے پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ شاید صورت حال کے حقیقی ادراک کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور نہیں ہے۔ میں ایک عرصہ سے اہل سنت کے ارباب دانش سے عرض کر رہا ہوں کہ کم از کم صورت حال کے ادراک اور معاملات کو سمجھنے کے لیے ہی کچھ ارباب فکر و دانش مل بیٹھیں مگر اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter