خدا خدا کر کے اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کا بھی اجلاس ہوا ہے اور قطر کے دارالحکومت میں او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس میں ۵۷ ملکوں کے نمائندوں نے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے عراق پر امریکی حملے اور طاقت کے زور پر عراق کی حکومت کی تبدیلی کے پروگرام کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی ممالک عراق یا کسی بھی اسلامی ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور سلامتی پر حملے میں شرکت سے باز رہیں۔ صدام حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش اور تبدیلی اندرونی معاملات میں مداخلت ہوگی جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران پر بھی توجہ دی جائے اور اسرائیل کے تباہ کن ہتھیاروں پر بھی غور کیا جائے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عالمی برادری پر تمام بین الاقوامی تنازعات میں ایک جیسا معیار رکھنے پر زور دینا چاہیے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کے اجلاس کا ہمیں ایک مدت سے انتظار تھا اور پوری دنیائے اسلام ایک عرصہ سے اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ کب مل بیٹھنے کی ضرورت محسوس کریں گے اور کب موجودہ عالمی حالات اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی استعماری یلغار کے ماحول میں اپنے موقف اور پروگرام کے تعین کے لیے جمع ہوں گے؟ ہمیں تو اس اجلاس کا انتظار اب سے ڈیڑھ سال قبل تھا جب یہی امریکہ ایک اسلامی ملک ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ پر چڑھ دوڑا تھا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، وہاں کی حکومت کو عوام سے پوچھے بغیر تبدیل کر دیا گیا تھا، افغانستان کی سالمیت، جغرافیائی سرحدوں اور اندرونی معاملات کو پامال کر دیا تھا، اور الزامات کی تحقیق و ثبوت کے تمام مسلمہ اصولوں اور معیار کو نظرانداز کرتے ہوئے بین الاقوامی تنازعات میں دوہرے معیار کا پرچم بلند کر دیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ مسلم حکمران ایک اسلامی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے احترام کے لیے، اس کی سالمیت کے تحفظ کے لیے اور اس کے اندرونی معاملات کو بیرونی دخل اندازی سے بچانے کے لیے کوئی کردار ادا کریں گے یا کم از کم آواز ہی بلند کریں گے۔
افغان عوام بھی اسی امید پر امریکی جارحیت کے سامنے ڈٹ گئے تھے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، ان کے بھائی دنیا میں موجود ہیں اور زندہ ہیں، وہ انہیں دشمن کے ہاتھوں مرتا نہیں دیکھیں گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن مسلم حکمرانوں نے آنکھیں بند کر لیں جبکہ عرب حکمرانوں نے اپنی آنکھوں پر عرب قومیت کی سیاہ عینک چڑھا لی۔ بیشتر مسلم حکمران یہ کہہ کر امریکہ کے ساتھ اتحاد میں شریک ہوگئے کہ جن ’’دہشت گردوں‘‘ کو خود امریکہ نے ٹریننگ دی تھی اور جنہیں خود ان مسلم ممالک نے اسلحہ اور امداد فراہم کی تھی وہ اب چونکہ روس سے نمٹنے کے بعد امریکہ سے بھی اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ہیں اور ایک اسلامی ملک کو روس کی فوجی مداخلت سے نجات دلانے کے بعد بہت سے اسلامی ملکوں کو امریکہ کی فوجی مداخلت سے نجات دلانے کی باتیں انہوں نے شروع کر دی ہیں اس لیے وہ گردن زدنی ہوگئے ہیں، ان کا دنیا میں زندہ رہنے کا جواز باقی نہیں رہا، وہ دنیا کی ہر گالی اور ہر الزام کے مستحق قرار پا گئے ہیں اور وہ ان بنیادی انسانی حقوق کے استحقاق سے بھی محروم ہو گئے ہیں جو اقوام متحدہ کے منشور اور قراردادوں میں بیان کیے گئے ہیں، اس لیے امریکہ ان سے جو سلوک روا رکھے جائز ہے، جس طریقہ سے انہیں ذبح کرے اور جبر و تشدد کی جس سان پر انہیں چڑھا دے بجا ہے۔
مسلم حکمرانوں نے طے کر لیا کہ ہم امریکہ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے، اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کریں گے اور اس کے کسی پروگرام کی مزاحمت نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے ہمارے کندھے حاضر ہوں گے اور ہم اپنے لاجسٹک وسائل اس کی خدمت میں پیش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھیں گے۔ جبکہ عرب حکمرانوں نے صاف کہہ دیا کہ چونکہ یہ عرب سرزمین کا قصہ نہیں ہے، عجمیوں کی بات ہے، یہ افغان ہیں اور پشتو یا فارسی بولنے والے ہیں اس لیے یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، ہمیں صرف اتنی ضمانت دے دی جائے کہ کسی عرب ملک پر حملہ نہیں ہوگا تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ دل و جان سے ساتھ دینے کو تیار ہوں گے۔ افغانستان پر امریکی حملہ کے دوران مسلم اور عرب حکمرانوں نے یہ سب کچھ کر دکھایا اور پھر اس پر خوشیاں منائیں کہ ہم نے ’’دہشت گردی‘‘ پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ ہماری زبانیں اب تک دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم اور کھلم کھلا فوجی جارحیت کی تائید و حمایت میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے سمجھا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر ہم نے پاکستان کو بچا لیا ہے اس لیے اب ہماری باری نہیں آئے گی، اور عرب حکمران مطمئن ہوگئے کہ ہم نے تو کسی عرب ملک پر حملہ نہ کرنے کی ضمانت پر دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم کا ساتھ دیا تھا اس لیے اب عرب ممالک ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ہیں، اب کسی عرب ملک کو امریکہ کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں رہا اور ہم نے افغان بھائیوں کی قربانی دے کر عرب ممالک کو بیرونی جارحیت اور مداخلت سے محفوظ کر لیا ہے۔
لیکن ابھی صرف ایک سال گزرا ہے کہ نیا منظر سامنے ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگلی درندے کو انسان کا خون پینے کو مل جائے تو پھر اسے کسی اور جانور کے خون میں مزہ نہیں آتا اور وہ انسانی خون ہی کی تلاش میں رہتا ہے اور یہ تو مسلمان کا خون ہے۔ اس لیے اب عراق اس کے پنجوں کی زد میں ہے اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے اندر وہ اپنے شکار کی تلاش میں بلا روک ٹوک گھوم رہا ہے، نہ پاکستان کے داخلی معاملات کا احترام باقی رہا اور نہ ہی کسی عرب ملک کے تحفظ کی کوئی ضمانت موجود ہے۔ اور اب ہمارے حکمرانوں کو یاد آیا ہے کہ کسی ملک کی سالمیت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، اس کی خودمختاری بھی کوئی مسئلہ ہے، اس کی حکومت کی تبدیلی کا بھی کوئی اصول ہونا چاہیے، بین الاقوامی تنازعات کا کوئی معیار بھی ہوتا ہے، کسی ملک پر دوسرے ملک کے حملہ سے کوئی بین الاقوامی ضابطہ اور قانون ٹوٹ بھی جایا کرتا ہے، اور کسی ملک کی سالمیت اور اندرونی خودمختاری کے تحفظ میں بین الاقوامی برادری کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ مسلم حکمران بہت دیر سے سہی مگر کسی جگہ مل تو بیٹھے ہیں اور انہیں کچھ ضابطے اور اصول بھی یاد آگئے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کا خاصا کردار ہے کہ وہ مغرب کے اس دوہرے معیار کے خلاف مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں، اقوام و ممالک کی خودمختاری کے احترام کی طرف مسلسل توجہ دلا رہے ہیں اور ایک عرصہ سے مسلم حکمرانوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ وہ متحد ہو کر ایک موقف طے کریں اور اکیلے اکیلے مرنے کے بجائے مل جل کر عالمی استعمار کا پنجہ ڈھیلا کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے غیر وابستہ کانفرنس کا سربراہی اجلاس بلایا اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا ایک ہنگامی اجلاس بھی منعقد کر ڈالا جس کے فیصلے کے مطابق قطر میں مذکورہ اجلاس ہوا ہے اور مسلم حکمرانوں نے یک آواز ہو کر امریکی عزائم اور پروگرام کے حوالہ سے اپنے مشترکہ موقف کا کسی حد تک اظہار کر دیا ہے۔
ہم قطر کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے فیصلوں اور موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اسے تمام تر تحفظات کے باوجود امید کی ایک کرن سمجھتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں نے مل بیٹھنے کی ضرورت تو محسوس کی اور کسی مشترکہ موقف کے تعین اور اظہار کا حوصلہ تو کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم مسلم حکمرانوں سے یہ گزارش ضروری سمجھتے ہیں کہ مغرب کو ملکوں کی سالمیت و خودمختاری کے احترام اور دوہرا معیار ترک کرنے کا جائزہ مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ خود اپنے متضاد موقف اور دوہرے معیار کا بھی جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور عراق کی خودمختاری، اندرونی معاملات اور سالمیت کے حوالہ سے خود ان کے ضابطے اور معیار کہیں الگ الگ تو نہیں ہیں؟