پروفیسر حافظ محمد سعید اور مولانا عبد الرحمان مکی کے سروں کی قیمت مقرر کر کے امریکہ اور بھارت نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا ہوگا کہ انہوں نے مبینہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کوئی پیشرفت کی ہے اور اس سے انہیں اس جنگ میں کوئی فائدہ مل سکتا ہے۔ لیکن اس کے مضمرات اور نتائج پر غور کرنے کی زحمت نہ اس کا فیصلہ کرنے والے امریکی دانشوروں نے گوارا کی ہے اور نہ ہی اس کا خیرمقدم کرنے والے بھارتی دانشوروں کو اس کی توفیق ہوئی ہے۔ ورنہ عمومی تاثر یہ ہے کہ اسے امریکی حکومت کی طرف سے بوکھلاہٹ کے اظہار کے سوا کوئی اور عنوان دینا مشکل ہے، اس لیے کہ پروفیسر حافظ محمد سعید اور مولانا عبد الرحمان مکی نہ تو ہتھیار بکف لڑاکے ہیں کہ ان کی مار دھاڑ کی رپورٹیں روز بروز سامنے آرہی ہوں اور نہ ہی روپوش ہو جانے والے لوگ ہیں کہ وہ لوگوں کو نظر نہ آتے ہوں اور ان کا عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہو۔ وہ کھلے بندوں پبلک جلسوں سے خطاب کرتے ہیں، پریس سے باتیں کرتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور جمعہ کی نمازوں کی امامت کرتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو حافظ محمد سعید نے گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر نہر کے پاس جماعت الدعوۃ کے نئے مرکز کا افتتاح کیا جسے ’’مرکز اقصٰی‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جمعہ کا خطبہ دینے کے علاوہ ہزاروں لوگوں کی امامت کی۔ پروفیسر عبد الرحمان مکی بھی اسی طرح ایک عرصہ سے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے آرہے ہیں اور اب بھی مختلف جلسوں میں ان کے خطابات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس صورتحال میں حافظ محمد سعید اور عبد الرحمان مکی کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ ان دونوں تک نارمل ذرائع کے ساتھ رسائی میں ناکام ہوگیا ہے اور وہ ازخود ہی یکطرفہ طور پر مجرم قرار دے کر ان کی سزا مقرر کر رہا ہے جسے نافذ کرنے کے لیے وہ لاکھوں ڈالروں کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ یہ مضحکہ خیز صورتحال ایک عام شخص کے نزدیک امریکہ کی طرف سے اپنی ناکامی کے کھلے اعتراف کے مترادف ہے جسے بوکھلاہٹ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے ’’خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی جج‘‘ بن کر سارے فیصلے خود ہی صادر کرنے کی روش اپنا رکھی ہے اس کی طرف سے اس قسم کے فیصلے مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ آج سے دس سال قبل جب امریکی اتحاد نے افغانستان پر لشکر کشی کی تھی تو میں ان دنوں برطانیہ میں تھا۔ ایک ٹی وی چینل نے اس سلسلہ میں ہونے والی ایک گفتگو میں مجھے بھی بلوایا اور سوال کیا کہ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کیا تھا کہ میں پہلے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ امریکہ اس کیس میں مدعی ہے یا جج؟ جب امارتِ اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت بین الاقوامی سطح پر ثالثی کے لیے تیار ہے اور طالبان کی طرف سے پیشکش موجود ہے کہ وہ فریقین کے لیے قابل قبول بین الاقوامی ثالثی فورم کے سامنے اپنا مقدمہ لے جانے اور الزامات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں تو پھر یکطرفہ طور پر ان پر فیصلہ مسلط کرنے میں اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے اس وقت اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا اور اس ناکام لشکر کشی کے بعد بھی اس سوال کا جواب کسی جانب سے سامنے نہیں آرہا۔
حافظ محمد سعید کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ ان کے خلاف امریکی اور بھارتی الزامات کی ایک چارج شیٹ ہے جس کا کسی عدالت کے روبرو سامنا کرنے سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ پاکستان کی عدالتوں میں ان الزامات کا سامنا کر چکے ہیں جہاں ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ مگر امریکہ اور بھارت ان عدالتی فیصلوں کو قبول کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ یہ عجیب سی دھاندلی ہے کہ مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں امریکہ کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ ہماری عدالت کا فیصلہ ہے اور ہم عدالتی فیصلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن حافظ محمد سعید کے بارے میں پاکستانی عدالتوں کے فیصلے ان کے نزدیک ’’عدالتی فیصلے‘‘ نہیں ہیں اور وہ انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں ایک امریکی عدالت کے فیصلے سے ہٹ کر امریکی حکومت خود کو کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھتی تو حکومتِ پاکستان پر یہ دباؤ کس لیے ہے کہ وہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکی احکامات کی تعمیل کرے، اور وہ جس شخصیت یا جماعت کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے کا اعلان کرے اسے ہاتھ پاؤں باندھ کر امریکہ کے سامنے پھینک دیا جائے۔
پھر یہ دہشت گرد قرار دینے کی بات بھی خوب ہے کہ ابھی تک عالمی سطح پر ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی متفقہ تعریف طے نہیں کی جا سکی، حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی مطالبے کے باوجود اس سوال کو ابھی تک گول کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کو اس بات کا بھی کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی حصے میں جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جو اس کی مرضی ہو کرتا پھرے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محاصرے میں گھرے ہوئے لوگوں کی امداد کے لیے آنے والے جہازوں کو روک لے، ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے کی کھلم کھلا دھمکیاں دیتا پھرے اور وحشت و درندگی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے، اس کے باوجود وہ دہشت گرد نہیں ہے، لیکن جن مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو ان کے ملکوں کی مجاز عدالتیں اس قسم کے الزام سے بری الذمہ قرار دے چکی ہوں انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے سروں کی قیمتیں مقرر کر دی جائیں۔ اگر اس کا نام انصاف ہے اور اس کے ذریعے دنیا میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو یہ امن کبھی قائم نہیں ہوگا۔
دنیا میں ہر سطح پر امن کی ضرورت ہے اور یہ ہر قوم اور ملک کی ضرورت ہے، لیکن امن کے لیے انصاف ضروری ہے۔ انصاف ہوگا تو امن ہوگا اور انصاف نہیں ہوگا تو امن محض ایک خواب ہی رہے گا۔ اور انصاف کا مطلب بالادست قوتوں کی اجارہ داری اور من مانی نہیں ہے بلکہ اس کے ہمیشہ سے چلے آنے والے کچھ مسلمہ اصول اور اس کے اپنے دائرے ہیں۔ امریکہ بہادر جب تک اپنی اجارہ داری اور من مانی کو ترک کر کے انصاف کے مسلمہ اصولوں کی طرف واپس نہیں آتا اس قسم کی کاروائیوں سے امن تو کیا بحال ہوگا، خود اس کے اپنے جائز مفادات بھی ہمیشہ خطرات کے بھنور میں چکر کاٹتے رہیں گے۔