بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قطر میں فٹ بال کے ورلڈ کپ کا آغاز ہو گیا ہے اور یہ سرگرمیاں تقریباً ایک مہینہ جاری رہیں گی، دنیا بھر کی مختلف ٹیمیں اور لاکھوں لوگ وہاں پہنچ رہے ہیں اور پوری دنیا کی توجہ ادھر مبذول ہے، کھیل ہوتے رہتے ہیں، فٹ بال ہے، کرکٹ ہے، کبڈی ہے، اور بھی مختلف نوعیت کے کھیل ہیں، لیکن کھیل کے اس سلسلے کے آغاز پر دو باتیں ایسی ہوئی ہیں کہ جن پر اس وقت دنیا بھر میں، سوشل میڈیا پر اور میڈیا کے دوسرے شعبوں میں بحث جاری ہے۔
ایک بات تو یہ کہ کھیل کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا ہے، اور دوسری یہ کہ منتظمین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو قطر کی تہذیب اور عقیدے کا احترام کرتے ہوئے اس کے دائرے میں رہنا ہو گا، یہ بات بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہی اور ان کا یہ ہضم نہ ہونا باعثِ تعجب بھی ہے اور باعثِ حیرت بھی۔
قطر ایک اسلامی ملک ہے، وہاں مسلمانوں کی آبادی اور مسلمانوں کی حکومت ہے، مسلمان اپنی تہذیب، ثقافت اور کلچر رکھتے ہیں اور ہر قوم کو اپنی تہذیب، ثقافت اور کلچر کا احترام کرنے اور احترام کا تقاضا کرنے کا حق حاصل ہے، خود اقوامِ متحدہ کے منشور میں تمام قوموں کی تہذیبوں کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔
مسلمانوں کی تہذیب کی بنیاد ایمان، عقیدے، قرآن پاک، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ پر ہے، اس وقت دنیا میں کلچر اور سولائزیشن کے حوالے سے جو کشمکش جاری ہے، اس میں دو واضح کیمپ سامنے ہیں، قرآن پاک نے جس کو ایک آیت کریمہ میں یوں تعبیر کیا:
اِن یتبعون الّا الظّن وما تھوَی الانفس، ولقد جآئھم من ربھم الھُدٰی۔ (النجم۔ ۲۳)
(نہیں پیروی کرتے یہ لوگ مگر گمان کی اور اس کی جو نفس خواہش کرتے ہیں، اور البتہ تحقیق ان کے پاس آچکی ہے ان کے رب کی طرف سے ہدایت)
آج کی دنیا اپنی تمام روایات، اقدار، قوانین اور ضوابط کی بنیاد انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو بناتی ہے، انسانی سوسائٹی کیا چاہتی ہے اور اس کی سوچ کیا ہے، اس پر ان کی بنیاد ہے، مغرب کا کہنا ہے کہ جو سوسائٹی کہتی، سوچتی اور طے کرتی ہے وہی حرفِ آخر ہے، جبکہ اسلام اس بات کو نہیں مانتا، اسلام کا کہنا ہے کہ ’’ولقد جآئھم من ربھم الھُدٰی‘‘۔
مسلمانوں کی عبادات ہوں یا اخلاقیات، سسٹم ہو یا معاملات، تجارت ہو یا کلچر و ثقافت، ان کی بنیاد اللہ رب العزت کے احکام اور جناب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ہے، جب مسلمان اپنی تہذیب کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر رکھتے ہیں تو اس تہذیب کو دوسرے اختیار نہ کریں، یہ ان کی مرضی ہے، لیکن اعتراض کرنے اور دباؤ ڈالنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے، بلکہ یہ جبر ہے، طنز کرنا، استہزاء کرنا، مذاق اڑانا اور یہ کہنا کہ یہ کیوں ہوا ہے، بھئی! کیوں نہ ہو؟ مغرب اپنے کام اپنے طریقے سے کرتا ہے، امریکہ اپنے معاملات اپنے طرز پر انجام دیتا ہے، برطانیہ اپنے معاملات اپنے حساب سے کرتا ہے تو قطر کو کیوں حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی تہذیب، عقیدے، کلچر اور تمدن کا احترام کرے اور کروائے۔
دیکھئے! یہ بات اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ مغرب نے انسانی معاملات اور سوسائٹی کے مختلف شعبوں کو آسمانی تعلیمات سے الگ نہیں بلکہ باغی کر دیا ہے اور اس نے آسمانی تعلیمات سے مکمل انحراف اور بغاوت کر رکھی ہے، اور وہ بغاوت ہم پر بھی تھوپنا چاہتا ہے، لیکن الحمد للہ ملتِ اسلامیہ خواہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہے، وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، اپنی بنیادوں سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے، یہ بات مغرب کو سمجھ نہیں آرہی ہے، بلکہ سمجھ تو آرہی ہے ماننے کو تیار نہیں ہے، لیکن یہ بات اسے ماننا ہو گی، مسلمانوں کے انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سماجی تمام معاملات کی بنیاد قرآن پاک، سنت رسول اور آسمانی تعلیمات پر ہے، یہ ہماری اجتماعیت کی بنیاد بھی ہے، فیملی کی بنیاد بھی ہے اور انفرادی بنیاد بھی ہے، اس پر قائم رہنا، اس کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاظت کروانا مسلمانوں کا حق ہے، دنیا کے تمام ملکوں میں جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں ان کی تہذیب و ثقافت میں کسی کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے، اور پھر اپنے ملک میں تو بالکل بھی نہیں ہے۔
چلو مغرب اپنے کسی ملک میں کہتا ہے کہ یہ نہیں کرنا اور وہ نہیں کرنا، ان کا الگ دائرہ ہے، لیکن کسی مسلمان ملک، مسلمان حکومت اور مسلمان ریاست میں ان پر طنز کیا جائے کہ انہوں نے قرآن کیوں پڑھا ہے، استہزاء کیا جائے کہ انہوں نے اپنے کلچر کی بات کیوں کی ہے، یہ جبر اور دھاندلی ہے جو مغرب اور مغرب کے ہمنوا حلقے اس موقع پر کر رہے ہیں، یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ اپنی تہذیب کی بالا دستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے دوسروں کی تہذیب کے وجود کو تسلیم نہیں کر رہے، ہم مغرب کی تہذیب کی بنیادوں کو نہیں مانتے، دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان ہوں یا جتنے بھی ہوں، ان کی غالب اکثریت اپنے انفرادی، خاندانی اور اجتماعی معاملات کی بنیاد اللہ اور رسول کو مانتی ہے، ہمارا اپناعقیدہ، اپنا کلچر، اپنی تہذیب اور اپنا سماج ہے، مغرب کو یہ حق ہے کہ اسے نہ مانے، مغرب کو یہ حق ہے کہ اپنے ہاں جو پابندیاں لگاتا ہے لگاتا رہے، وہ اس کی مرضی ہے، لیکن مغرب مسلمان ملک اور مسلمان ریاست پر دھاندلی اور جبر کے ذریعے اپنی ثقافت کو مسلط کرنے کے درپے ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔
میں قطر کی حکومت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، انہوں نے تہذیبوں کے تصادم اور سولائزیشن وار کے اس دور میں اپنی بنیاد اور اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کر کے ملتِ اسلامیہ کے دلوں کی ترجمانی کی ہے، اس پر وہ خراجِ تحسین، تشکر اور تبریک کے مستحق ہیں، دنیا بھر کے شعوری مسلمانوں کو اس کا خیر مقدم کرنا اور ساتھ دینا چاہئے، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور عقیدے کی بات کریں، اپنے ملک میں اس کے دائرے کی حفاظت کریں، اس کے احترام کا تقاضا کریں اور جو ہمارے ہاں آئے تو اس کے احترام کے لیے یہ ہمارا درست تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں آؤ گے تو ہماری تہذیب کی پابندی کرو گے اور اس کے دائرے میں رہو گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میچ کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرے اور قطر کی حکومت نے جو انتہائی خوش آئند آغاز کیا ہے، اللہ پاک باقی دنیا کی مسلمان حکومتوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ایسے مواقع پر اپنی ملی حمیت اور اپنی ثقافتی غیرت کا اظہار کیا کریں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔