سینٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز جمعیۃ علماء اسلام کے سینیٹر حافظ فضل محمود کی طرف سے پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے جس میں عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے حالیہ حملوں کو عالمِ اسلام اور انسانیت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ جبکہ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل جناب عصمت عبد المجید نے اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ عربوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے۔ ادھر روس نے اس حملہ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ سے اپنے سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر یہ حملہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے منظوری لیے بغیر براہ راست کیا ہے، جس سے متعدد شہریوں کے جاں بحق ہونے کے علاوہ عراقی عوام کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حتیٰ کہ روزنامہ جنگ لاہور میں ۱۸ دسمبر ۱۹۹۸ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عراق پر اب تک کیے جانے والے حملوں میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور چار لاکھ کے قریب متاثر اور معذور ہو چکے ہیں۔
عراق پر ان حملوں کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ عراق کے پاس کیمیاوی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جنہیں تلف کرنے میں وہ تعاون نہیں کر رہا، اس لیے ان ہتھیاروں کے خاتمہ کے لیے یہ حملے ناگزیر ہو گئے تھے۔ مگر روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۸ دسمبر ۱۹۹۸ء کے مطابق عراق میں امریکہ کے ایک سابق سفیر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق مہلک کیمیاوی ہتھیار بنانے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اور اس کے پاس اس سلسلے میں بنیادی ریسرچ کے انتظامات موجود نہیں ہیں۔ سابق امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ اگر کیمیاوی ہتھیاروں سے امریکہ اور برطانیہ کے حکمرانوں کی مراد کلورین اور ایمونیا گیس ہے تو اس سے لندن اور واشنگٹن کی سینکڑوں دکانیں بھری پڑی ہیں، اس لیے صرف اس وجہ سے عراق پر اتنے بڑے حملے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ سب بہانے سازیاں ہیں جو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کی جا رہی ہیں، اور اصل قصہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اس کاروائی کے ذریعے تین چار مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے حاصل کر لیے ہیں:
- عربوں کو دہشت اور خوف کا شکار کر کے موجودہ صورتحال پر قانع رکھنا۔
- اس بہانے خلیج میں موجود فوجی قوت میں مزید اضافہ کرنا، جیسا کہ امریکہ کے چیئرمین چیف آف سٹاف ہیگ شیلٹن نے خلیج میں مزید فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔
- عربوں کو تیل کی سابقہ قیمتیں برقرار رکھنے بلکہ مزید کم کرنے پر مجبور کرنا، جیسا کہ اس حملہ کے دوران تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کا فیصلہ کر لیا گیا۔
- اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا، اور نام نہاد فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس کی ضد اور ہٹ دھرمی کو تقویت پہنچانا۔
ان مذموم مقاصد اور مفادات کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے برطانیہ کی رفاقت سے عراق میں جو وحشیانہ کاروائی کی ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے جنگل میں کوئی درندہ پاگل ہو گیا ہو۔ مگر اس سلسلہ میں سب سے شرمناک کردار بیشتر مسلم حکومتوں کا ہے جو ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کے مصداق خاموش تماشائی کے طور پر یہ سارا منظر دیکھتی رہی ہیں، اور ان کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ مسلم سربراہوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے کسی مشترکہ موقف کا زبانی طور پر ہی اظہار کر دیتیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ یہ نام نہاد مسلم حکومتیں ہیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کی بجائے استعماری قوتوں کے مفادات کی محافظ بنی ہوئی ہیں، اور انہی کی وجہ سے امریکہ کو سوڈان اور افغانستان کے بعد ایک بار پھر عراق پر غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا موقع ملا ہے۔