نفاذ اسلام کی تحریکیں اور مسلم ممالک کی حکومتیں

   
۲۹ جون ۲۰۱۲ء

پاکستان شریعت کونسل کے اجلاس کے لیے مری کے سفر کے حوالے سے ایک رپورٹ گزشتہ کالم میں پیش کی تھی۔ پاکستان شریعت کونسل ایک فکری و علمی فورم ہے جس میں نفاذِ شریعت کے شعبے میں انتخابی سیاست سے ہٹ کر فکری و نظریاتی حوالے سے باہمی تبادلۂ خیالات ہوتا ہے اور جو بات سمجھ میں آئے اس کا علمی و عوامی حلقوں میں حسب موقع اظہار کر دیا جاتا ہے۔ اس بار بھوربن مری میں امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیرصدارت منعقد ہونے والے دو روزہ اجلاس میں مختلف مسائل زیر بحث آئے جن میں دو امور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر ہونے والی بحث کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ایک مسئلہ تو مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکوں کے طریق کار کے بارے میں ہے اور دوسرا پاکستان میں قومی اداروں میں جاری کشمکش کا ہے جس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے باہمی مشاورت کے ساتھ ان پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکوں کو ایک عرصہ سے اس صورتحال کا سامنا ہے کہ جو تحریکیں عسکری انداز میں ہتھیار اٹھا کر نفاذ شریعت کا پروگرام رکھتی ہیں انہیں نہ صرف اپنے ملک کی فوجی قوت کا سامنا ہے بلکہ عالمی سطح پر انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے اور ایک طرح سے پوری دنیا ان کے خلاف یک آواز ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ تحریکیں ہیں جو سیاسی انداز میں نفاذ اسلام کے مقصد کی طرف آگے بڑھتی ہیں، جمہوری راستہ اختیار کرتی ہیں، رائے عامہ اور ووٹ کو ذریعہ بناتی ہیں اور عدم تشدد کے اصول پر پرامن سیاسی جدوجہد کرتی ہیں۔ مگر ان کی عوامی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتائج کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور مقتدر قوتیں مختلف حیلوں سے ان کے مقابل آکر ان کا راستہ روک دیتی ہیں۔ ایک عرصہ سے یہ کھیل جاری ہے جس کی وجہ سے سیاسی اور جمہوری عمل پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور ان حلقوں کو تقویت مل رہی ہے جو نفاذ اسلام کے لیے سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو کارِ لاحاصل سمجھتے ہیں اور عسکری جدوجہد کو نفاذ شریعت کا واحد جائز طریق کار قرار دے کر اس کے لیے مسلسل محنت بلکہ پیش رفت کر رہے ہیں۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک نفاذ اسلام کےلیے پر امن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو ہی صحیح سمجھا ہے، ہمیشہ اسی کی حمایت کی ہے اور اب بھی پاکستان یا کسی بھی مسلم ملک کے اندر نفاذ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کو ہم درست عمل نہیں سمجھتے۔ لیکن جمہوری اور سیاسی عمل کے جمہوری اور سیاسی نتائج کو جس بے دردی کے ساتھ کچلا جا رہا ہے اس کے باعث ہمارے لیے اب سیاسی اور جمہوری عمل کی حمایت اور دفاع مشکل ہوتا جا رہا ہے:

  • دو عشرے قبل الجزائر میں دینی جماعتوں کے اتحاد اسلامک سالویشن فرنٹ نے عوامی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مبینہ طور پر اسی فیصد ووٹ حاصل کیے تو فوج سامنے آگئی، الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا اور دوسرے مرحلے کو منسوخ کر دیا گیا جس کے ردعمل میں بہت سے مذہبی حلقوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ اس ہتھیار اٹھانے کے مسئلہ پر ان کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوگئے یا کر دیے گئے، ملک میں تکفیر یعنی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے اور باہمی قتل و قتال کا بازار گرم ہوگیا جو کم و بیش دس سال جاری رہا اور اس میں مجموعی طور پر ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد قتل ہوگئے۔
  • گزشتہ دنوں کویت میں عام انتخابات کے دوران دینی جماعتوں کے اتحاد نے عوامی ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی اور پارلیمنٹ کے ذریعے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا تو اسے بادشاہت کے اختیار کے ذریعے مسترد کر دیا گیا۔
  • مصر کی قومی اسمبلی میں اخوان المسلمون اور سلفی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی تو سپریم کورٹ نے انتخابات کو غیر قانونی قرار دے کر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔
  • جبکہ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ دستوری طور پر قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے، پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا پابند قرار دیا گیا ہے اور اسلام کو ریاستی مذہب تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو ملک میں نفاذ کا راستہ نہیں دیا جا رہا اور مقتدر قوتیں نہ صرف متحد ہو کر نفاذ اسلام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں بلکہ جو چند قوانین عوامی دباؤ کے باعث نافذ کرنا پڑے ہیں حیلوں بہانوں سے انہیں بھی منسوخ یا کم از کم غیر مؤثر بنانے کی مہم ہر وقت جاری رہتی ہے۔

پاکستان شریعت کونسل کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کا ایجنڈا بھی یہی نظر آرہا ہے کہ نفاذ اسلام کے جمہوری اور سیاسی راستوں کو مسدود کر کے ان کا اعتماد ختم کیا جائے اور الجزائر کی طرح پاکستان کے دینی حلقوں کو تشدد، تکفیر اور خانہ جنگی کی دلدل کی طرف زبردستی دھکیلا جائے تاکہ الجزائر والا کھیل پاکستان میں کھیلا جا سکے۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل نے اس صورتحال کو انتہائی تشویش ناک اور اضطراب انگیز قرار دیتے ہوئے ملک کے تمام مکاتب فکر کے علمی حلقوں، دینی مراکز اور سیاسی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ مستقبل کے ان خطرات و خدشات کے سدباب کے لیے باہمی مشاورت کے ساتھ قوم کی علمی و فکری رہنمائی کا اہتمام کریں۔

پاکستان میں داخلی طور پر قومی اداروں کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں پاکستان شریعت کونسل کی رائے ہے کہ یہ دستور پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی کو عملاً نظرانداز کر دینے کا منطقی نتیجہ ہے کہ دستور نے جس کو بالادست اور بالاتر قرار دیا ہے اس کی بالادستی کے سامنے سرنڈر ہونے کی بجائے قومی ادارے ایک دوسرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی فکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگر قیام پاکستان کے بعد سے ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو اس کے دائرے میں پابند کیا جاتا، خلفائے راشدین کے طرز حکومت کو اپنایا جاتا اور معاشرت و معیشت میں اسلامی روایات کو فروغ دیا جاتا تو نہ کرپشن کا عفریت کھڑا ہوتا، نہ طبقاتی کشمکش اور گروہی بالادستی کی جنگ کا مکروہ منظر دکھائی دیتا اور نہ ہی قومی اداروں میں بالاتری کی یہ کشمکش سامنے آتی۔ یہ سب کچھ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی سے انحراف اور روگردانی کا نتیجہ ہے۔ اور آج بھی اس دلدل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی کو عملاً تسلیم کیا جائے اور خلافت راشدہ کی طرز کی فلاحی ریاست کو اپنی منزل قرار دے کر خلفائے راشدینؓ کے طرز حکومت کو اپنایا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter