میں اس وقت امریکہ میں ہوں اور مکی مسجد بروکلین نیویارک کے خطیب حافظ محمد صابر صاحب کی رہائشگاہ میں بیٹھا یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں۔ حافظ صاحب کی دعوت پر مکی مسجد میں گزشتہ تین دن سے روزانہ تراویح کی نماز کے بعد قرآن کریم کے حقوق اور اس کے فہم کے تقاضوں کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہو رہی ہے، یہ سلسلہ دو تین دن اور جاری رہے گا اور اس کے بعد گوجرانوالہ واپسی کے لیے روانہ ہو جاؤں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس سے قبل دا ر الہدیٰ (اسپرنگ فیلڈ، ورجنیا) میں مولانا عبدالحمید اصغر کی دعوت پر رمضان المبارک کی ابتدائی پانچ راتوں میں نماز تراویح کے بعد تراویح میں قرآن کریم کے پڑھے ہوئے حصے کے خلاصہ کے طور پر گزارشات پیش کرتا رہا ہوں جبکہ شعبان کے آخری ایام میں دارالہدیٰ میں ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے حوالہ سے مسلسل پانچ روز تک نماز مغرب کے بعد بیانات ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ اس سفر میں مجھے بوسٹن، بالٹی مور، ہیوسٹن اور پراویڈنس میں جانے اور مختلف دینی اجتماعات میں گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ یہ سفر دینی مصروفیات سے بھرپور گزر رہا ہے۔
امریکہ میں نائن الیون کے سانحہ کے بعد نہ صرف یہ کہ مسلمانوں میں دین سے تعلق کا رجحان بڑھ رہا ہے اور مساجد و مکاتب کی رونق میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ امریکی دانشوروں میں بھی یہ سوچ نمایاں ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ سوسائٹی اور ریاست سے مذہب کا تعلق منقطع کرنے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنے کی ضرورت ہے اور وہ مذہب ہی کے ذریعے پُر ہو سکتی ہے۔ واشنگٹن میں ایک مسلمان دانشور سے ملاقات ہوئی جو امریکی دانشوروں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ریاست اور سوسائٹی کے ساتھ مذہب کا تعلق بحال کرنے کے لیے راستے تلاش کیے جائیں، ان سے اس موضوع پر کم و بیش دو گھنٹے تک تفصیلی بات ہوتی رہی، انہوں نے دو امریکی دانشوروں ڈگلس جانسٹن اور سینتھیا سیمپسن کی تحریر کردہ ایک ضخیم کتاب مجھے دی جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ ریاست مذہب جیسے اہم عنصر کو نظر انداز کر رہی ہے، جبکہ اس کتاب کا پیش نظر لفظ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے تحریر کیا ہے۔ مجھ سے فرمائش کی گئی کہ میں ان دانشوروں کے ساتھ ایک نشست میں تفصیلی گفتگو کے لیے وقت نکالوں مگر یہ اس لیے مشکل تھا کہ اس سطح کے حضرات کے ساتھ کسی نشست کے لیے مہینوں پہلے وقت طے کرکے اس کی پلاننگ کرنا پڑتی ہے اور میرے پاس مزید دو ہفتے سے زیادہ امریکہ میں قیام کے لیے وقت نہیں تھا، اس لیے اگلے کسی سفر کے موقع پر ملاقات کا وعدہ کرکے ان سے معذرت کی۔
یہ بات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں جس طرح ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق کو ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور اس کے لیے مسلسل کام ہو رہا ہے، خود مغرب میں اس حوالہ سے واپسی کی سوچ پیدا ہو چکی ہے اور اس کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک علمی اور فکری سطح پر سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کو اس بات کا دلیل اور منطق کے ساتھ احساس دلایا جائے کہ اس نے سوسائٹی اور ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اور جس فیصلے کو مسلم دنیا سے بھی منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، بنیادی طور پر وہ فیصلہ ہی غلط تھا اور انسانی سوسائٹی کو اس سے فائدہ حاصل ہونے کی بجائے نقصان پہنچا ہے۔ اگر ہمارے ٹھیٹھ دینی حلقوں کے کچھ صاحب علم نوجوان اس کام کے لیے تیار ہوجائیں جو مطالعہ و تحقیق کے ذریعے سوسائٹی اور ریاست سے مذہب کی لاتعلقی کے نقصانات کی نشاندہی کرکے منطق اور استدلال کے ساتھ انہیں واضح کر سکیں، اور پھر مغربی سوسائٹی کے ان حلقوں تک رسائی بھی حاصل کر پائیں جو اس وقت فی الواقع اس سلسلہ میں پریشان ہیں اور حق کے متلاشی ہیں، تو یہ مذہب اور انسانیت دونوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔