تسخیرِ کائنات اور قرآنِ کریم

   
۱۸ اگست ۲۰۱۲ء

مریخ تک رسائی بلاشبہ انسانی تاریخ کا اہم واقعہ اور سائنس کی غیر معمولی پیش رفت ہے جس پر امریکی سائنسدان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مجھے ہیوسٹن میں واقع ناسا ہیڈکوارٹر میں عام وزیٹر کے طور پر ایک سے زیادہ مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ہے اور چاند پر اترنے والی خلائی گاڑی اپالو میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا ہے جو عام نمائش کے لیے وہاں رکھی ہوئی ہے۔ جبکہ ناسا ہیڈکوارٹر کے مین گیٹ کے سامنے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے قاری مطیع الرحمان مرحوم کے قائم کردہ حفظ قرآن کریم کے مدرسہ میں بھی حاضری ہوئی جو پہلے کرائے کی ایک بلڈنگ میں تھا، اب اس کی جگہ ایک عرب اسکالر کی کاوش سے تھوڑے فاصلے پر بہت بڑی مسجد اور اس کے ساتھ دینی مرکز تعمیر ہو چکا ہے۔ مریخ تک رسائی کا یہ مشن نصف صدی قبل شروع ہوا تھا اور اس کے لیے امریکہ اور سوویت یونین میں مسابقت بھی رہی ہے جس میں بالآخر امریکہ نے کامیابی حاصل کی اور اس کی بھیجی ہوئی خلائی گاڑی مریخ پر کامیابی کے ساتھ لینڈ کر کے وہاں زندگی کے آثار تلاش کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔

خلائی تسخیر سائنس کا ایک اہم موضوع اور ایجنڈا ہے جس میں مختلف ممالک کے سائنسدان مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور مریخ تک ناسا کے خلائی مشن کی یہ رسائی بھی اس کا ایک کامیاب مرحلہ ہے۔ اس مشن کے فنی اور تکنیکی پہلوؤں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہمارے بس میں نہیں اس لیے کہ نہ تو ہم اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی زیادہ مطالعہ کا موقع ملا ہے، البتہ اس سے متعلق دلچسپی کے کچھ دیگر پہلوؤں پر چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مریخ پر ناسا کے خلائی مشن کے کامیابی کے ساتھ اترنے کی خبر پڑھ کر مجھے برطانیہ کے ایک نو مسلم مورس عبد اللہ یاد آگئے جو خلائی تسخیر کا تذکرہ قرآن کریم میں پڑھ کر مسلمان ہوئے تھے اور اسکاٹ لینڈ کے ایک شہر ڈنز میں قیام پذیر ہیں۔ ڈنز میں مجھے چند سال قبل اپنے بھانجے ڈاکٹر سبیل رضوان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے گھر میں میری مورس عبد اللہ سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے انٹرویو کیا جس کی تفصیل اسی کالم میں ان دنوں شائع ہوئی تھی، اس کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کے لیے دوبارہ درج کر رہا ہوں۔نیوکاسل کا رہنے والا مورس نامی انگریز پیشہ کے لحاظ سے انجینئر ہے، ایک موقع پر اس کی ڈیوٹی دو سال کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں لگ گئی جہاں اس کے ساتھ مسلمان انجینئر بھی شریک کار تھے۔ مورس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مصری انجینئر فہمی کے سامنے جب خلائی تسخیر میں مغربی ممالک کی پیش رفت کا ذکر کیا تو فہمی نے اسے بتایا کہ خلا میں جانے کے امکانات کا قرآن کریم نے تذکرہ کیا ہے۔ اس پر مورس کو تعجب ہوا اور اس نے فہمی سے قرآن کریم میں اس کا حوالہ دکھانے کا تقاضہ کیا۔ فہمی نے اسے حوالہ دکھانے کی بجائے کلام پاک کا انگلش ترجمہ مہیا کر کے خود اسٹڈی کرنے کے لیے کہا جو اس کے لیے ہدایت کا باعث بن گیا۔ اور اس نے قرآن کریم کے انگلش ترجمے کے مطالعہ سے محسوس کیا کہ قرآن کریم فطرت اور نیچر کی سب سے بہتر ترجمانی کر رہا ہے اور اس نے اس پر قبولِ اسلام کا فیصلہ کر لیا۔ مصری انجینئر نے خلائی تسخیر کے حوالہ سے سورۃ الرحمان کی آیت نمبر ۳۳ کی طرف اس کی توجہ دلائی جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تمہارے بس میں ہو کہ زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل سکو تو نکل جاؤ، مگر تم جہاں بھی نکلو گے اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہی پاؤ گے۔‘‘

اس ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم کی یہ آیت مورس کے دل میں اتر گئی، چنانچہ وہ قبول اسلام کے بعد نیو کاسل سے ترکِ وطن کر کے اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنز میں فیملی سمیت مقیم ہے اور ایک چھوٹا سا زرعی فارم بنا کر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات کے فروغ میں مصروف رہتا ہے۔ اس نے اپنا اسلامی نام عبد اللہ رکھ کر مورس کو بھی اس کے ساتھ شامل رہنے دیا ہے اور مورس عبد اللہ کہلاتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مریخ تک انسان کی رسائی کا یہ پہلو بھی بار بار ذہن کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ اس مشن کا مقصد مریخ میں انسانی زندگی کے آثار کی تلاش بتایا جاتا ہے اور عجیب سی صورتحال سامنے آرہی ہے کہ جس زمین پر انسان بس رہا ہے وہاں زندگی کے آثار تابکاری اور کیمیائی اثرات کے باعث کمزور پڑتے جا رہے ہیں اور ماحولیات کے ماہرین اس پر سر پکڑے بیٹھے ہیں جبکہ چاند، مریخ اور دیگر سیاروں میں زندگی کے آثار کی تلاش جاری ہے۔ ہمارے ماہرین ماحولیات میں ہمیں مسلسل ڈرا رہے ہیں کہ مٹی، ہوا اور پانی مسلسل متاثر ہو رہے ہیں اور مستقبل میں پینے کے قابل پانی اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا کا میسر ہونا ایک مشکل مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ دیگر سیاروں میں زندگی کے آثار کی تلاش کے ساتھ ساتھ اپنے سیارے میں زندگی کے آثار کو خراب کرنے کے لیے کون متحرک و مصروف ہے؟ یہ کام بھی تو ہم ہی کر رہے ہیں، آسمان سے فرشتے اتر کر تو یہ سب کچھ نہیں کر رہے۔ اس کا حل کیا ہے اور اس صورتحال سے ہم جان کیسے بچا سکتے ہیں؟

اس بارے میں دو سال قبل نیویارک میں ماحولیات کے مسائل پر منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار کی خبر یاد آ رہی ہے جس کے مطابق اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے کہا تھا کہ اگر ہم ماحولیات کے حوالے سے دنیا کو کسی بڑی تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں زندگی کے ان معاشرتی اصولوں کو عمل میں لانا ہوگا جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے سائنسدان خلائی تسخیر میں کامیابی کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر بھی غور کر سکیں تاکہ اس سیارے پر موجود زندگی ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ختم نہ ہو جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter