نصاب میں تبدیلی پر اضطراب اور اسماعیلی فرقہ کا تعارف

   
تاریخ : 
۱۱ اپریل ۲۰۰۴ء

سکولوں اور کالجوں کے نصابِ تعلیم کے بارے میں متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ نصاب میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں کی جا رہی، وفاقی وزراء نصاب تعلیم سے اسلامی مواد کو خارج نہ کرنے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں اور اب وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بھی کہا ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم اسلامی ہے اور اس میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ لیکن دوسری جانب ملک کے تعلیمی حلقے مسلسل حالتِ اضطراب میں ہیں، اساتذہ اور طلبہ کے مختلف فورموں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ نصاب میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں، نئی نصابی کتابوں میں متعدد ایسی تبدیلیاں موجود ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ملک کے تعلیمی و امتحانی نظام کو آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے تیزی کے ساتھ پیش رفت جاری ہے۔ ملک کے دینی حلقے بھی اس حوالے سے خاصے متحرک ہیں۔ گزشتہ روز جامعہ نعیمیہ لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے نمائندوں کے مشترکہ اجلاس میں اس صورتحال کو اضطراب انگیز قرار دیتے ہوئے تحریک ختم نبوتؐ کی طرز پر جدوجہد منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم نے بھی پاکستان شریعت کونسل کے زیراہتمام ایک مشاورتی اجلاس ۵ اپریل کو مسجد امن باغبان پورہ لاہور میں مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیرصدارت منعقد کیا جس میں متعدد دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے تازہ ترین صورتحال کے بارے میں شرکائے اجلاس کو بریف کیا۔ اس موقع پر دو باتیں سامنے آئیں:

  1. ایک یہ کہ وزیراعظم پاکستان کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس کے حوالے سے جو یہ خبر آئی ہے کہ نصابِ تعلیم سے سورہ توبہ کے اخراج کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی جگہ تبدیل کر دی گئی ہے اور سورہ توبہ کو، جو زیادہ تر جہاد کے احکام و واقعات پر مشتمل ہے، میٹرک کی بجائے ایف اے کے نصاب میں شامل کر دیا گیا ہے جس سے وہ لاکھوں طلبہ اس کی تعلیم سے محروم رہیں گے جو میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ اصل مسئلہ ایک سورہ یا چند آیات قرآنی کا نصاب میں شامل کرنا یا ان کی جگہ تبدیل کرنا نہیں بلکہ اصل متنازعہ امر یہ ہے کہ ملک کے نظامِ تعلیم کو بتدریج آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے دینی حلقوں کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔

اس سلسلہ میں اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفیر محترمہ نینسی پاؤل اور آغا خان فاؤنڈیشن کے جناب شمس الحق لاکھانی کے درمیان باقاعدہ تحریری معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت آغا خان فاؤنڈیشن اس سلسلہ میں بنیادی کردار ادا کرے گی اور حکومتِ امریکہ کی طرف سے اسے ساڑھے چار سو لاکھ ڈالر دیے جائیں گے۔ اس معاہدہ پر وفاقی وزیرتعلیم محترمہ زبیدہ جلال اور سندھ کے وزیرتعلیم جناب عرفان مروت نے بھی دستخط کیے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس معاہدہ کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

اس کے علاوہ یہ خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ آغا خان فاؤنڈیشن کے تعلیمی بورڈ کو سرکاری سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو ۲۰۰۶ء سے باقاعدہ امتحانات لینا شروع کر دے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آرہی ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی بورڈز کو، جن کی تعداد تئیس بتائی جاتی ہے، اس بورڈ کے ساتھ ملحق کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے اور آغا خان تعلیمی بورڈ کو امتحانی یونیورسٹی کا درجہ دے کر ملک کے تمام تر امتحانی نظام کو اس کی نگرانی میں دیا جا رہا ہے۔

اس کا مطلب ملک کے تعلیمی اور دینی حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ آئندہ ملک کے سرکاری تعلیمی نظام کی نگرانی آغا خان فاؤنڈیشن کرے گی اور ظاہر ہے جب ایسا ہوگا تو بات صرف امتحانی سسٹم تک محدود نہیں رہے گی بلکہ نصاب کی تیاری بھی اسی کی نگرانی میں ہوگی۔ اس طرح ملک کی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت اور فکر و ثقافت تمام تر کا دارومدار آغا خان فاؤنڈیشن کی پالیسی اور ترجیحات پر ہوگا۔ اگر حالات کی رفتار کا یہ تجزیہ اور مستقبل قریب کے خدشات کا یہ نقشہ درست ہے تو یہ انتہائی خطرناک بات ہے اور اس کے بارے میں ملک کے تعلیمی و دینی حلقوں کی طرف سے جس اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ نہ صرف درست ہے بلکہ ضرورت سے کہیں کم ہے۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں امریکی سفیر اور آغا خان فاؤنڈیشن کے مذکورہ معاہدے نے پاکستانیوں کے لیے دو مسائل کھڑے کر دیے ہیں:

  1. ایک یہ کہ اب ہمارے تعلیمی نظام و نصاب کے معاملات بھی امریکہ نے براہ راست سنبھال لیے ہیں اور ہمارے وزراء نے اس پر دستخط کر کے اس صورتحال کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام و نصاب کے بارے میں مغربی حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور جو مطالبات سامنے آرہے ہیں ان کی طرف عملی پیش رفت کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ مغرب کے ان مطالبات میں سرفہرست مطالبہ یہ ہے کہ تعلیمی نصاب سے دینی امور کو خارج کر دیا جائے، اس لیے کہ جب ایک مسلم نوجوان کو عقیدہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام حق مذہب ہے اور باقی مذاہب حق نہیں ہیں، پھر اس کے ساتھ جب اسے یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام اور عمومی معاشرت میں دیگر اقوام کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے دین کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے تو وہ ذہنی، فکری اور عملی طور پر وہ اس عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہتا جس کی قیادت اس وقت مغرب کے ہاتھ میں ہے اور جسے وہ ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ اور ’’ماڈرن سولائزیشن‘‘ قرار دے کر اسے پوری دنیا پر طاقت کے زور سے مسلط کرنے کے درپے ہے۔

    مغرب کے نزدیک مسلمانوں اور پاکستانیوں کے عالمی برادری اور سوسائٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ و ثقافت اور خاندان و معاشرت کے حوالے سے وہ تمام مواد تعلیمی نصاب سے خارج کر دیا جائے جو اسلام کے جداگانہ تشخص اور مسلمانوں کے خاندانی و معاشرتی نظام کی دوسری قوموں سے امتیاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس بنا پر اگر تعلیمی نصاب کے بارے میں مغرب کا یہ موقف قبول کر لیا جائے، جبکہ تعلیمی نظام میں امریکی مداخلت کا مقصد بھی یہی ہے، تو پھر وہ چھوٹی چھوٹی اور جزوی باتیں غیر اہم ہو جاتی ہیں جن کے حوالے سے ہمارے دینی حلقے اس وقت احتجاج کر رہے ہیں اور تعلیمی نظام کا اصل فکری ڈھانچہ اور ثقافتی فریم ورک ہی سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ پھر بات صرف تعلیمی نصاب تک محدود نہیں رہتی بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظریاتی تشخص اور اس کے الگ ملک کے طور پر قیام کی نظریاتی اساس اور تہذیبی پس منظر کا جواز بھی دھندلکوں کی نذر ہونے لگتا ہے جسے ملک کا کوئی بھی محب وطن شہری ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا۔

  2. نینسی پاؤل اور شمس الحق لاکھانی کے مذکورہ مبینہ معاہدے سے دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ امریکہ یا مغرب نے پاکستان کے تعلیمی نظام و نصاب کے بارے میں اپنے مقاصد کی طرف پیش رفت میں پاکستان کے معروف تعلیمی حلقوں میں سے کسی پر اعتماد نہیں کیا بلکہ اس نے ذریعے کے طور پر ایک ایسی اقلیت کا انتخاب کیا ہے جو اپنے عقیدے و فکر کے حوالے سے پاکستان کی غالب اکثریت سے کسی طرح کی ہم آہنگی نہیں رکھتی اور عالمِ اسلام کے بارے میں اس کے سیاسی کردار پر پاکستان کے دینی و تعلیمی حلقے واضح تحفظات و خدشات رکھتے ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن یا آغا خان یونیورسٹی یقیناً ایک تعلیمی ادارے کے طور پر متعارف ہے اور اسی حیثیت سے اسے سامنے لایا گیا ہے لیکن آغا خان فرقے کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ ایک الگ فرقہ ہے جو عقائد اور سیاسی کردار دونوں حوالوں سے عالمِ اسلام کے سوادِ اعظم سے الگ طرزِ عمل کا حامل ہے۔

    اس طرح مذکورہ معاہدے کی رو سے پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے کہ وہ ایک طرف اپنے تعلیمی نظام اور تہذیب و ثقافت کو مغرب کے تقاضوں اور دباؤ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف داخلی محاذ پر اپنے اکثریتی عقائد و روایات کو اقلیتی مداخلت اور دست برد سے بچانے کے لیے بھی محنت کریں۔ اب ملک کے دینی حلقوں کو آغا خانی گروہ کے بارے میں ملک کے عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ اس اقلیتی فرقے کے عقائد کیا ہیں، ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ میں اس کا کردار کیا رہا ہے، عالم اسلام کی موجودہ صورتحال میں وہ کس کیمپ میں کھڑا ہے، اور اسلام اور مغرب کی ہمہ گیر کشمکش میں وہ کس کی خدمات سرانجام دے رہا ہے؟ آغا خانی دوستوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے لیے جس جگہ اور کیمپ کا انتخاب کا ہے وہ ان کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوگا اور انہیں اس کی مستقبل میں کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جوں جوں بات آگے بڑھے گی انہیں اس کا احساس ہوتا جائے گا لیکن بدقسمتی سے جب وہ احساس و ادراک کی اصل منزل تک پہنچیں گے تو واپسی کے تمام دروازے بند ہو چکے ہوں گے۔

    گزشتہ صدی میں یہ رول اور کردار قادیانیوں نے پسند کیا تھا وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں، مغرب نے اب ان کی بجائے اس کام کے لیے کسی اور کو چنا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مغرب کے نزدیک اس کی حیثیت ایک چلے ہوئے کارتوس کی ہے جسے دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ خیر یہ سوچنا آغا خان کمیونٹی کے ارباب دانش کا کام ہے، اگر انہوں نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے تو یقیناً اس کے نتائج و عواقب سے بھی وہ بے خبر نہیں ہوں گے۔

البتہ اپنے قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا ہم ان کا حق سمجھتے ہیں کہ ’’آغا خانی فرقہ‘‘ کون ہے اور اس کا جداگانہ تشخص اور عقائد کیا ہیں۔ چنانچہ پنجاب یونیورسٹی کے ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے مطابق:

  • یہ ’’اسماعیلی فرقہ‘‘ کی ایک شاخ ہے۔ اسماعیلی فرقہ حضرت امام جعفر صادقؒ کی وفات کے بعد باقی اہل تشیع سے اس اختلاف پر الگ ہوگیا تھا کہ باقی اہل تشیع نے امام جعفر صادقؒ کے فرزند امام موسٰی کاظمؒ کو ان کا جانشین اور اپنا امام تسلیم کیا تھا جبکہ اسماعیلیوں نے ان کی بجائے امام جعفر صادقؒ کے بڑے بیٹے امام اسماعیلؒ کو ان کے جانشین کے طور پر اپنا امام قرار دیا تھا۔
  • باقی اہل تشیع کے نزدیک بارہویں امام کے غائب ہونے کے بعد اب ان کی دوبارہ واپسی تک انہی کی امامت چلتی رہے گی مگر آغا خانی فرقے کے نزدیک اماموں کا یہ تسلسل نسل در نسل چلا آرہا ہے اور ان کے موجودہ امام پرنس کریم آغا خان انچاسویں امام ہیں۔ اسماعیلیوں کے مختلف گروہ ہیں جن میں ہمارے ہاں خوجے، بوہرے، داؤدی اور آغا خانی معروف ہیں۔
    آغا خانی فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ امام براہ راست خدا کا نمائندہ ہوتا ہے اور عقائد و عبادات کی مختلف صورتیں متعین کرنے کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے۔ قرآنی آیات کی تشریح میں اس کا قول آخری ہے، دنیا کا نظام اماموں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اخروی نجات کے لیے امام سے تعلق قائم ہونا ضروری ہے اور جو شخص امامِ وقت کو تسلیم کیے بغیر مر گیا وہ کافر کی موت مرے گا۔
  • اسماعیلی فرقے کی الگ شاخ کے طور پر آغا خانی گروہ کا آغاز ایران میں آقائے حسن علی شاہ کی امامت سے ہوا جو آغا خان اول کہلاتے ہیں، ان کی وفات ۱۸۸۱ء میں ہوئی۔ ان کے جانشین آغا خان دوم علی شاہ کی وفات ۱۸۸۵ء میں ہوئی۔ آغا خان سوم سلطان محمد شاہ ۱۸۸۵ء میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے، ان کی ولادت کراچی میں ہوئی اور انہوں نے جنوبی ایشیا کی سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا، وہ برطانوی وائسرائے کی کونسل کے ممبر رہے اور انہیں اس دور میں متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا، تحریک پاکستان میں بھی ان کے کردار کا بطور خاص تذکرہ ہوتا ہے۔ ۱۹۵۷ء میں ان کی وفات کے بعد پرنس کریم آغا خان چہارم کے لقب کے ساتھ آغا خانیوں کے امام بنے اور اب تک وہی امام چلے آرہے ہیں۔
  • دائرہ معارف اسلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں آغا خان فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جو جنوبی ایشیا، انڈونیشیا، چین، ملایا، مشرق وسطٰی اور افریقہ کے مختلف ممالک کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں، جبکہ کراچی کو آغا خانی سرگرمیوں میں مرکزی مقام حاصل ہے۔

اس پس منظر میں اگر ملک کے تعلیمی اور دینی حلقے اپنے تعلیمی نصاب و نظام کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور ایجوکیشن سسٹم کو ایک اقلیت کے سپرد کر دینے پر ان کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے تو یہ غیر متوقع اور غیر منطقی ردعمل نہیں ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اضطراب کو محسوس کریں، اس کے اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں اور اس چنگاری کو شعلہ بننے سے قبل حکمت عملی اور تدبر و حوصلے کے ساتھ قابو کرنے کی کوشش کریں ورنہ پانی سر سے گزر جانے کے بعد پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter