امریکی صدر نکسن سے استعفٰی کا مطالبہ

   
۹ اگست ۱۹۷۴ء

واٹر گیٹ اسکینڈل کے سلسلہ میں غلط بیانی کے اعتراف کے ساتھ ہی امریکہ کے صدر نکسن کو امریکہ کے قومی حلقوں حتیٰ کہ خود اپنی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے استعفیٰ کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے اور سیاسی حلقوں کے مطابق اب مسٹر نکسن کے لیے استعفیٰ کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔

نکسن کا قصور یہ ہے کہ ان کے دور میں امریکہ کے کچھ ذمہ دار شہریوں کے فون خفیہ طور پر ٹیپ کیے گئے۔ بات عدالت تک پہنچی تو عدالت کے مطالبہ کے باوجود نکسن نے ٹیپ عدالت کے حوالے کرنے اور اپنی پوزیشن صاف کرنے میں تامل کیا۔ اب سینٹ کی خصوصی کمیٹی نے نکسن پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی تو نکسن نے تمام ٹیپ عدالت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ اور ساتھ ہی اس سلسلہ میں غلط بیانی کا بھی اعتراف کر لیا۔ یہ بات ان کی تمام بین الاقوامی خدمات کے باوجود، جن میں چین و روس کے ساتھ روابط اور عربوں کے ساتھ تعلقات کی نئے سرے سے استواری جیسے امور بھی شامل ہیں، ان کے اقتدار کے لیے چیلنج بن گئی۔ اور شاید یہ سطور شائع ہونے تک وہ مستعفی ہو چکے ہوں۔

نکسن کے استعفے کے بعد بین الاقوامی حالات اور امریکہ کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں؟ یہ سوال بعد کا ہے۔ اس وقت ہم مسئلہ کے اس اہم پہلو پر قارئین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسی قوم جس کی نظریاتی و معاشی خرابیاں عبرتناک حد تک زبان زد عوام ہو چکی ہیں، اپنے سیاسی ضابطۂ اخلاق اور جمہوری اقدار کی اس حد تک پابند ہے کہ ان کے ایک آئینی اور منتخب سربراہ مملکت کو (ہمارے ہاں کی دھاندلیوں کی بہ نسبت) ایک معمولی غلطی پر اقتدار سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل مغربی جرمنی کے چانسلر ولی برانت کے ساتھ بھی یہی قصہ پیش آ چکا ہے۔ لیکن ہم اعلیٰ اقدار و روایات، نظریات و افکار اور تہذیب و ثقافت کے ڈھنڈورچی ہونے کے باوجود اپنی سیاسی زندگی کو کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں کر سکے۔ ہمارے ہاں اسلام، سیاست، آئین اور جمہوریت کے نام پر وہ کچھ ہوتا ہے کہ انسانیت اور شرافت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رنگتی۔ شاید فرنگی سامراج دو سو برس تک ہمیں یہی کچھ سکھاتا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter