اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے

   
جولائی ۱۹۹۶ء

’’بنوں فقہی کانفرنس‘‘ منعقدہ ۱۷ و ۱۸ اپریل ۱۹۹۶ء کے لیے لکھا گیا۔

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین خصوصاً علیٰ سید الرسل خاتم النبین وآلہ واصحابہ اجمعین۔

المرکز الاسلامی بنوں کے سربراہ برادرم مولانا سید نصیب علی شاہ صاحب زید مجدہم کا شکر گزار ہوں کہ ان کی عنایت سے ’’بنوں فقہی کانفرنس‘‘ میں اہل علم و فکر کے اس اجتماع کے سامنے کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں، کانفرنس کو کامیابی سے نوازیں اور کچھ مقصد کی باتیں شرکائے کانفرنس کے گوش گزار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

شاہ صاحب موصوف گزشتہ دنوں فقہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے اپنے معزز رفقاء کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے تو ان کے پاس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مضامین و مقالات کے مجوزہ عنوانات کی فہرست میں سے ایک عنوان کا میں نے خود انتخاب کیا جو فہرست کے مطابق یوں تھا: ’’تقلید و اجتہاد کی حدود کا تعین اور اجتماعی اجتہاد کے تصور کا علمی جائزہ‘‘۔ لیکن جب قلم و کاغذ سنبھالے خیالات کو مجتمع کرنا چاہا تو محسوس ہوا کہ یہ ایک نہیں دو الگ الگ عنوان ہیں اور ہر عنوان اپنی جگہ مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ اس لیے ان میں سے ثانی الذکر کا انتخاب کرتے ہوئے اسے ’’اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے‘‘ کی شکل دے کر اس پر کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اور گفتگو کے آغاز سے پہلے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ گزارشات کسی علمی تحقیق و مطالعہ پر مبنی نہیں ہیں اور نہ ہی خود کو اس کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ یہ اس وقت دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والی نظریاتی اور تہذیبی کشمکش کی فضا میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے ایک نظریاتی کارکن کے احساسات و تاثرات ہیں جو کسی علمی ترتیب کے بغیر آپ حضرات کے سامنے آرہے ہیں اور انہیں اسی پس منظر میں سماعت فرمانے کی آپ سب بزرگوں سے استدعا ہے۔

معزز شرکائے کانفرنس! اجتہاد احکامِ شرعیہ کے چار بنیادی مآخذ میں سے ہے جسے قرآن کریم میں ’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم‘‘ کی صورت میں بیان فرمایا گیا ہے اور جناب سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرف سے ’’اجتھد برایی‘‘ کے عزم کے اظہار پر ان کی حوصلہ افزائی اور تصویب فرما کر اسے سند توثیق بخشی ہے۔ پھر یہ جناب نبی اکرمؐ پر نبوت و رسالت کے مکمل اور ختم ہونے کا ناگزیر تقاضا بھی ہے کہ قیامت تک وحی کے عدمِ نزول کے دور میں پیش آنے والے واقعات و مسائل کا وحی کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے کی کوئی صورت ضرور موجود ہو تاکہ نسل انسانی ان امور میں وحی الٰہی کی راہنمائی سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ جناب رسول اکرمؐ پر مکمل ہوجانے والی آسمانی وحی اور قیامت تک نسل انسانی کو پیش آنے والے مسائل و مشکلات کے درمیان اسی علمی ارتباط کا نام ’’اجتہاد‘‘ ہے جس کی بدولت اسلام دنیا کے ہر خطہ، نسل اور زمانہ کے لوگوں کے لیے ایک قابل عمل بلکہ واجب العمل نظام حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔

اجتہاد کا یہ عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شروع ہوگیا تھا لیکن نبی اکرمؐ کے اجتہادات کو چونکہ وحیٔ الٰہی کی تائید یا سکوت کی صورت میں خود وحی الٰہی کا درجہ حاصل ہے اس لیے اصطلاحی معنوں میں اجتہاد کا آغاز حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے شمار کیا جاتا ہے جو اس وقت سے مسلسل جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اجتہاد کے بارے میں ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ پہلی تین یا چار صدیوں کے بعد اجتہاد کا دروازہ علماء نے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے بعد سے کوئی مستقل مجتہد سامنے نہیں آرہا، لیکن یہ غلط فہمی علوم و فنون کی تشکیل و تدوین کے فطری مراحل سے بے خبری کا نتیجہ ہے ورنہ اجتہاد کا دروازہ کسی دور میں بند نہیں ہوا اور تمام تر کمزوریوں کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ البتہ اجتہاد کے اصول و قواعد کی ترتیب و تدوین کا باب ضرور بند ہوا ہے اور یہ ایک منطقی اور فطری عمل ہے۔ دنیا میں مختلف علوم و فنون کے آغاز، تشکیل اور ترقی و کمال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک بات سب میں مشترک نظر آتی ہے کہ انسانی معاشرہ کی کوئی نہ کوئی ضرورت، مناسبت رکھنے والے ذہن میں داعیہ پیدا کرتی ہے جو رفتہ رفتہ ذوق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ تک اس ذوق کا انفرادی اظہار ہوتا ہے اور مختلف جہات سے سامنے آنے والا یہ ذوق بتدریج ایک علم اور فن کی صورت اختیار کر جاتا ہے، یہی صورتحال ’’اجتہاد‘‘ کے ساتھ بھی پیش آئی۔ اجتہاد ایک شرعی ضرورت تھی جس نے اجتہادی صلاحیت سے بہرہ ور ذہنوں میں داعیہ پیدا کیا، کچھ عرصہ تک اس ذوق کا انفرادی اظہار ہوتا رہا، پھر اصول و ضوابط وضع ہوئے، استنباط و تطبیق کے قواعد ترتیب پائے، مختلف شخصیات کی طرف سے وضع کردہ اصول و قواعد نے توافق و تقابل کے مراحل سے گزرتے ہوئے رفتہ رفتہ ایک باضابطہ علم کی حیثیت اختیار کر لی اور متعدد فقہی مکاتب فکر وجود میں آگئے۔

اس پس منظر میں مجتہدینِ مطلق یا مستقل مجتہدین جو اجتہاد کے اصول و قواعد وضع کرتے ہیں، ان کے ظہور کا دور وہی تھا جب بنیادی قواعد و ضوابط تشکیل پا رہے تھے۔ اور اس دور میں بیسیوں مستقل مجتہدین سامنے آئے اور انہوں نے اپنے فقہی حلقے قائم کیے جن میں سے چار، یا ظواہر کو شامل کر کے پانچ مکاتب فکر کو امت نے قبول کر لیا اور باقی فقہی حلقے فطری عمل کے مطابق تاریخ کی نذر ہوگئے۔ اس کے بعد کسی مستقل مجتہد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اس علم کے بنیادی قواعد و ضوابط کی تشکیل و ترتیب کا باب بند ہوگیا۔ بالکل اسی طرح جیسے مثلاً علم نحو کے قواعد و ضوابط کی ترتیب کا ایک دور تھا، اس دور میں مختلف ائمہ نے قواعد و ضوابط وضع کیے جو قیامت تک اس علم کی بنیاد بن گئے۔ اب ان بنیادی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی تشریح و تعبیر، ترمیم و اضافہ اور اضافی قواعد کی تدوین کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے اور ہر باصلاحیت کا حق ہے کہ وہ اس جولانگاہ میں اپنے رہوارِ فکر کو جہاں تک اس کے بس میں ہو دوڑاتا چلا جائے، لیکن اگر وہ نحو کے بنیادی قواعد مثلاً ’’الفاعل مرفوع والمفعول منصوب والمضاف الیہ مجرور‘‘ کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کرے گا تو کوئی ذی ہوش شخص اسے یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر علوم و فنون کی تشکیل و تدوین کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کے بنیادی قواعد و ضوابط کے وضع و تدوین کا باب بند ہوا ہے تو اسے علماء یا فقہاء نے بند نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے فطری عمل اور تاریخ کا تسلسل کارفرما ہے۔

معزز شرکائے محفل! اصل مسئلہ اجتہاد کے باب کا کھلا ہونا یا بند ہو جانا نہیں بلکہ آج کے دور میں انسانی معاشرہ کو درپیش مسائل اور اجتہادی عمل کے درمیان پائی جانے والی وہ خلیج ہے ہو ہر باشعور شخص کو واضح طور پر نظر آرہی ہے اور ہر شخص اپنے ذوق اور ذہن کے مطابق اس کی تعبیر کر رہا ہے۔ اس خلیج کا باعث اجتہاد کی بندش نہیں بلکہ اجتہاد کے جاری و ساری عمل کو صحیح طور پر استعمال میں نہ لانا ہے۔ اور میری ناقص طالب علمانہ رائے میں مسائل حاضرہ اور اجتہادی عمل کے درمیان پائی جانے والی خلیج کے اہم اسباب یہ ہیں:

  1. اب سے تیرہ صدیاں قبل اسلامی اعتقادات پر یونانی فلسفہ کی یلغار کے دور میں ہمارے علماء نے اس فلسفہ کی ماہیت اور مضرات کا صحیح طور پر بروقت ادراک کر لیا تھا اور اس سے کماحقہ واقفیت حاصل کر کے اسی کی زبان میں اس کے توڑ اور مقابلہ کی فضا پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے یونانی فلسفہ اسلامی اعتقادات پر حملہ میں کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ مگر اب سے کم و بیش دو سو برس پہلے سائنسی ایجادات و انکشافات، صنعتی ترقی اور مغرب کے لادینی فلسفۂ حیات کی بیک وقت پیش رفت کے موقع پر ہمارے علمی ادارے اس سہ جہتی یلغار کی نوعیت اور نفع و نقصان کا صحیح طور پر اندازہ نہ کر سکے اور رازیؒ، غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ کی طرح مخالف فلسفہ کا برابر کی سطح پر مقابلہ کرنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ مغرب کا فلسفہ لادینیت امت مسلمہ کے مختلف طبقات کے ذہنوں میں غیر شعوری ارتداد کی کمین گاہیں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اگر اس دوران ہمارے علمی ادارے اور دینی مراکز سائنسی علوم، صنعت و حرفت اور مغربی فلسفہ سے واقفیت اور اس کی تعلیم کے دروازے بند نہ کر لیتے اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہی علوم کے ہتھیاروں کو ان سے مقابلہ کے لیے اختیار کرتے تو آج مغرب کا لادینی فلسفہ مسلمانوں کے اعتقادی، نظریاتی، قانونی، معاشرتی اور تہذیبی ڈھانچے کے لیے اس قدر کھلا چیلنج نہ بن پاتا۔
  2. کوئی نظام جب تک معاشرہ میں نافذ العمل رہتا ہے، معاشرہ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھنا اور نئے پیش آمدہ مسائل اور قانون میں مطابقت پیدا کرتے رہنا قانون اور اس سے متعلق اداروں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ مگر بیشتر مسلم ممالک پر استعماری قوتوں کے تسلط کے دور میں یہ صورت قائم نہ رہ سکی۔ ان ممالک کے قانون و نظام بدل گئے، قضا کا منصب افتا کی صورت اختیار کر گیا اور اسلامی احکام و قوانین پر عمل کی حیثیت ایک اختیاری عمل کی سی رہ گئی۔ جس کی وجہ سے معاشرہ کی ضروریات کا جائزہ لینا اور قانون کے ساتھ ان کی تطبیق کی صورتیں پیدا کرنا قضا و حکم سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کی ذمہ داری نہ رہا بلکہ یہ ذمہ داری عام مسلمان کو منتقل ہوگئی کہ وہ کسی معاملہ میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتا ہے تو کسی مفتی سے دریافت کر لے۔ اس ’’تنزل‘‘ نے احکام و قوانین کی اجتماعیت کا تصور مجروح کر دیا، انفرادیت اور محدود سوچ اجتہادی عمل پر غالب آگئی اور معاشرہ کے اجتماعی مسائل و مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کرنے کا کوئی مربوط نظام باقی نہ رہا۔
  3. دورِ غلامی میں دینی مدارس اور ان کے نظامِ تعلیم کا بنیادی ہدف اسلامی عقائد، دینی علوم اور مسلم معاشرت کا تحفظ تھا جس میں انہیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور برصغیر میں دینی مدارس کے ہاتھوں فکری اور تہذیبی شکست مغربی فلسفہ کے علمبرداروں کے لیے ابھی تک سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، لیکن بنیادی ہدف چونکہ تحفظ تھا اس لیے دینی مدارس کے نصاب و نظام کی ترجیحات اسی ’’تحفظ‘‘ کے گرد گھومتی رہیں۔ اور معاشرہ میں شرعی احکام و قوانین کی تطبیق و تنفیذ ان کے اہداف میں نہیں تھی اور نہ ہی دور غلامی میں اس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا اس لیے فطری طور پر تطبیق و تنفیذ سے متعلقہ اجتہادی عمل دینی مدارس کی ترجیحات میں جگہ نہ پا سکا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کی غالب اکثریت اجتہاد کی اہمیت و ضرورت، معاشرہ میں اس کے حقیقی کردار اور اس کی صلاحیت و استعداد کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ہے۔

اجتہاد کا عمل اس دوران بند نہیں ہوا بلکہ اس کا دائرہ محدود ہوگیا تھا۔ مختلف مکاتب فکر کے بڑے بڑے دارالافتا اس دوران جو کام کرتے رہے اس کا بیشتر حصہ اجتہاد کے زمرہ میں آتا ہے۔ لیکن معاشرہ میں شرعی احکام و قوانین کی تطبیق و تنفیذ کا عمل اجتہاد کے دائرے میں شامل نہ رہا اور مغربی فلسفۂ حیات کی ہمہ جہتی یلغار کا صحیح طور پر ادراک نہ کرتے ہوئے اس کے مقابلہ کے لیے بروقت پیش بندی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی جس کی وجہ سے مسائلِ حاضرہ اور اجتہادی عمل کے درمیان وہ خلیج نظر آرہی ہے جس نے نہ صرف اصحابِ فکر و نظر کو مسلسل پریشان کر رکھا ہے بلکہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔

حاضرینِ مکرم! اجتہاد کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اور سوال کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے اجتہاد کی اہلیت کا مسئلہ جس نے علمائے دین اور جدید اہل دانش کے درمیان باقاعدہ ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بعض خطبات کا سہارا لیتے ہوئے ان کے فرزند جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کے ساتھ قانون دانوں کا ایک طبقہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ علمائے کرام چونکہ آج کے علوم و فنون اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسائل اور ان کے اسباب و نتائج سے براہِ راست واقف نہیں ہوتے اس لیے ان میں اجتہاد کی اہلیت نہیں ہے اس لیے اجتہاد کا یہ حق پارلیمنٹ کو منتقل ہوجانا چاہیے۔ جبکہ علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ فقہاء نے شرعی اجتہاد کے لیے جن علوم کی مہارت کو شرط قرار دیا ہے مثلاً (۱) قرآن کریم (۲) سنتِ رسولؐ (۳) اجماع امت (۴) اقاویل سلف (۵) علوم عربیت ، چونکہ پارلیمنٹ اور دیگر آئینی ادارے ان علوم سے آگاہی نہیں رکھتے اس لیے ان کے لیے اجتہاد کا حق تسلیم کرنے سے تحریفِ دین کا دروازہ کھل جائے گا۔

ہماری ناقص رائے میں ان دونوں موقفوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اجتہاد کے مسلمہ اصولوں کے مطابق مجتہد کے لیے ماخذ اور محل دونوں کے ساتھ اجتہادی درجہ کی واقفیت ضروری ہے۔ ماخذ سے مراد وہ علوم شرعی ہیں جن سے آگاہی کو فقہاء نے اجتہاد کے لیے شرط ٹھہرایا ہے، او رمحل سے مراد اس شعبہ زندگی کے مروجہ قواعد و ضوابط، روایات اور عرف ہے جس سے متعلقہ مسئلہ درپیش ہے۔ ماخذ اور محل سے کماحقہ آگاہی اور ان دونوں کے درمیان تطبیق کی صلاحیت کے تین اجزا سے اجتہاد کا عمل ترتیب پاتا ہے۔ اور اس اجتماعی تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں طبقوں کے موقف کی واقعاتی بنیاد کسی نہ کسی حد تک ضرور موجود ہے اور ان میں سے کسی ایک کو یکسر نظر انداز کر دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔

جدید اہلِ دانش کا خیال ہے کہ زمانے کے حالات، متعلقہ شعبۂ زندگی کے قواعد و روایات اور عرف سے آگاہی اصل ہے جبکہ قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر، احادیث کی شروح و تراجم اور فقہی احکام کے ذخیرے اردو زبان میں وافر مقدار میں میسر ہونے کی وجہ سے ماخذ سے عدم واقفیت کا خلا کسی حد تک پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ مطالعہ کا علم کسی بھی علم کی باقاعدہ تعلیم کا متبادل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور کسی بھی علم میں لٹریچر کی فراوانی اور عام افراد کی اس تک رسائی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لٹریچر تک رسائی رکھنے والے شخص نے محض اس بنیاد پر اس علم میں اس درجہ کی مہارت بھی حاصل کر لی ہے جو کسی بھی علم میں اجتہادی عمل کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آج ملک میں بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جن کا آئین و قانون کا مطالعہ اور ان کی تشریح کی صلاحیت متوسط درجہ کے وکلاء سے زیادہ ہے لیکن ملک کی کوئی عدالت ایسے کسی شخص کو کسی آئینی اور قانونی معاملہ میں رائے کا باقاعدہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ یہ اصول اور ضابطہ کی بات ہے جس سے کسی شعبۂ زندگی میں انحراف نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف علمائے کرام کا یہ طرز عمل بھی محلِ نظر ہے کہ محل سے ناواقفیت یعنی متعلقہ مسئلہ کے ’’مالہ و ما علیہ‘‘ اور اس کے حوالہ سے مروجہ عرف و روایات سے عدمِ آگاہی کے خلا کو متعلقہ شعبہ کے کچھ افراد سے پوچھ گچھ کے ذریعے پر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور حالات زمانہ اور مروجہ عرف و روایات سے اس درجہ کی ’’عملی ممارست‘‘ کو ضروری نہیں سمجھا جا رہا جو کسی زمانے میں ہمارے فقہاء کا طرۂ امتیاز ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے جواز اور عدم جواز کی بحث پر ایک نظر ڈال لیجئے جس میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے میں ہمیں کم و بیش ربع صدی کا وقت لگا۔ اور اگر اس کے اسباب کا تجزیہ کریں گے تو سب سے بڑا سبب وہی لاؤڈ اسپیکر کے تکنیکی معاملات سے عملی ممارست کا فقدان قرار پائے گا جس نے ہمیں ربع صدی تک تکنیکی بحث میں الجھائے رکھا۔

اس کے ساتھ مسئلہ کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ علمائے کرام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس درجہ کی عملی ممارست کو شرط قرار دینا اور انہیں اس کے لیے مجبور کرنا بجائے خود محلِ نظر ہے۔ یہ تخصصات کا دور ہے، ماخذ کے اعتبار سے سب علوم شرعیہ پر یکساں مہارت رکھنے والے حضرات کا ملنا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اگر محل کے لحاظ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اطوار و عرف سے واقفیت کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے تو بات اور زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔ قدیم فقہاء نے ماخذ کے لحاظ سے تو ’’تجزی فی الاجتہاد‘‘ کے عنوان سے اس کا حل پیش کیا تھا کہ ایک شخص ایک شعبہ میں اجتہاد کی اہلیت سے بہرہ ور ہے اور دوسرے شعبہ میں نہیں ہے، تو یہ صورت جمہور فقہاء کے نزدیک قابل قبول ہے۔ اور اگر ’’تجزی فی الاجتہاد‘‘ کو محل کے نقطۂ نظر سے بھی تسلیم کر لیا جائے تو معاملات میں توسع اور تنوع کا دائرہ مزید پھیلتا چلا جائے گا۔

حضراتِ محترم! اصحابِ فکر و نظر نے اس مشکل کا حل ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کی صورت میں تجویز کیا ہے۔ اور یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے بلکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے طرزِ اجتہاد کا احیا ہے جس میں فقہاء اور ماہرین کی ایک بڑی جماعت مشاورت اور اجتماعی بحث و مباحثہ کی صورت میں مسائل کے استنباط و استخراج کے مراحل کو تکمیل تک پہنچاتی تھی۔ اور اسی اجتماعی اجتہاد کے ذریعے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل فقہ حنفی کا بنیادی ذخیرہ ہیں۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امام اعظمؒ کے طرزِ اجتہاد کو زندہ کرتے ہوئے اہلِ علم اور ماہرین کی ایک ایسی کونسل قائم کی جائے جو نہ صرف یہ کہ غیر سرکاری ہو بلکہ اقتدار کی کشمکش اور گروہی سیاست کی ترجیحات سے بے نیاز اور بالاتر ہو۔ اس میں دینی علوم کے مختلف شعبوں کے چوٹی کے ماہرین کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے عملی تعلق رکھنے والے تجربہ کار ماہرین کو بھی شریک کیا جائے اور باہمی بحث و تمحیص اور اجتماعی مشاورت کے ذریعے مسائلِ حاضرہ کا حل تلاش کیا جائے۔

آخر میں مسئلہ کے ایک اور پہلو کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور جہاں علم و فن کے لحاظ سے تخصصات میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے وہاں معاشرت کے تخصصات و امتیازات دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی معاشرہ نیشنلزم کا حصار توڑ کر انٹرنیشنل ازم کی طرف عازمِ سفر ہے۔ فاصلے سمٹتے جا رہے ہیں اور انسانی زندگی تیزی کے ساتھ ایک مشترک بین الاقوامی معاشرت (گلوبل ویلج) کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اجتہاد کی اہلیت کی شرائط میں (۱) ماخذ سے آگاہی (۲) محل سے واقفیت (۳) اور تطبیق کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ (۴) بین الاقوامی رجحانات سے شناسائی کی شرط کا اضافہ بھی کرنا ہوگا، اور اجتماعی معاملات میں بین الاقوامی امور کے ماہرین کے علم و تجربہ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اسی صورت میں ہم مستقبل کے انسانی معاشرہ اور اجتہاد کے اسلامی اصولوں کے درمیان وہ حقیقی رشتہ جوڑ سکیں گے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کا پہلے سے زیادہ احساس دلا رہا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter