’’اوصاف‘‘ کے مراسلات کے صفحہ میں ان دنوں اسلام آباد کی محترمہ شیبا احمد اور اسلام آباد و راولپنڈی کے قارئین کے درمیان ’’مراسلاتی جنگ‘‘ جاری ہے۔ شیبا احمد کو ’’اوصاف‘‘ پر اعتراض ہے کہ وہ محترمہ کے بقول ملک کے پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کی بجائے جاہل، گنوار اور تنگ نظر لوگوں بالخصوص مولویوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کی مخالفت کر رہا ہے، جبکہ ان کے خیال میں ملک کے پڑھے لکھے شہریوں اور اسلام آباد و راولپنڈی کے باسیوں کی اکثریت سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینے کی حامی ہے اور ملک و قوم کا مفاد اسی میں سمجھتی ہے کہ حکومت پاکستان ایٹمی قوت کے پھیلاؤ کو روکنے کے اس مجوزہ معاہدہ پر دستخط کر دے۔ دوسری طرف وفاقی دارالحکومت اور اس سے ملحقہ شہر کے قارئین کا موقف یہ ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہیں اور ملک کے باشندوں کی اکثریت اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
اس بحث کے دیگر مندرجات و سوالات سے قطع نظر دو پہلوؤں کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں:
- ایک یہ کہ ’’مولوی‘‘ کے بارے میں ہمارے ہاں ایک عرصہ سے یہ تاثر پایا جاتا ہے اور مختلف حلقوں کے مولوی کے خلاف استدلال کی سب سے بڑی بنیاد یہی تاثر ہوتا ہے کہ وہ اَن پڑھ ہے، تنگ نظر ہے، حالات سے واقف نہیں ہے، اور اجڈ ہوتا ہے۔ اس کا معیار اور کسوٹی ایسا کہنے والے حضرات کی نظر میں کیا ہے؟ اس کے بارے میں خود اپنے ذاتی اور خاندانی تجربہ کے پس منظر میں دو واقعات عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
میرے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دارالعلوم دیوبند کے قدیمی فضلاء میں سے ہیں، گزشتہ ساٹھ برس سے مسلسل درسِ نظامی کے اعلیٰ درجات اور دورۂ حدیث کی سطح پر تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے براہ راست شاگردوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار سے کم نہیں ہے۔ اور وہ مختلف علمی موضوعات پر پچاس سے زائد ضخیم تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیکن جس زمانہ میں ووٹر کے لیے خواندہ ہونے کی شرط تھی، گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ان کا ووٹ صرف اس لیے درج نہیں ہو سکا تھا کہ وہ پرائمری پاس نہیں تھے، اس وجہ سے سرکاری کاغذات میں ان کا شمار ’’ناخواندہ‘‘ افراد میں ہوا اور وہ ووٹ دینے کے اہل قرار نہ پائے۔
خود میرا ذاتی واقعہ ہے کہ ایک تعلیمی ادارہ میں مجھ سے بعض موضوعات پر لیکچر دینے کی فرمائش کی گئی اور میں تقریباً تین برس تک تاریخ، حدیث، فقہ اور دیگر موضوعات پر لیکچر دیتا رہا۔ لیکن جب سرکار کے ساتھ اس ادارہ کے معاملات طے ہونے کا مرحلہ آیا تو سرکاری کاغذات میں مجھے اَن کوالیفائیڈ قرار دے دیا گیا کہ میرے پاس کسی سرکاری ادارے کی سند نہیں تھی۔ میں اس پر اعتراض نہیں کر رہا، بلکہ ایک واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اَن پڑھ اور پڑھا لکھا ہونے کا معیار یہ ہے۔
اور اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اعلیٰ عدالت کے ایک جسٹس صاحب کے بارے میں بعض اخبارات کی رپورٹیں شاید کچھ قارئین کو ابھی تک یاد ہوں کہ ان کے میٹرک کے سرٹیفکیٹ کے جعلی ہونے کے بارے میں تحقیقات ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے اس پس منظر میں اگر شیبا احمد جیسی خواتین کی طرف سے مولوی کے اَن پڑھ ہونے کی پھبتی کسی جائے تو کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ پڑھے لکھوں اور اَن پڑھوں کا اپنا دائرہ کار ہے، اور بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں کہ پڑھے لکھے کچھ نہیں کر پاتے اور اَن پڑھ اپنی جرأتِ رندانہ کے باعث میدان مار لیتے ہیں۔ افغانستان میں روس کی مسلح افواج کی آمد کے موقع پر ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں کہ سوویت یونین نے کابل میں اپنی فوجیں اتار دیں تو پڑھے لکھے اور مہذب لوگ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مطالعہ کرنے، ان کی حقوق کی شقوں کا تجزیہ کرنے، بین الاقوامی معاہدات کی ورق گردانی کرنے، اور یورپی ملکوں میں سیاسی پناہ کے امکانات تلاش کرنے میں مصروف ہو گئے۔ مگر ان سب تکلفات سے ناواقف اور بے خبر تنگ نظر اور اجڈ مولوی رائفل اٹھا کر روسی جارحیت کے خلاف صف آرا ہوا اور تاریخ گواہ ہے کہ اس مولوی نے ہی تاریخ کا منہ موڑا۔ ورنہ نہ صرف افغانستان اپنی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو جاتا بلکہ بلوچستان کے ساحلوں اور ان کی وساطت سے خلیج کے ممالک پر بھی روسی تسلط قائم ہو چکا ہوتا۔
اس لیے ملک کے جاہل اور اَن پڑھ عوام اور تنگ نظر مولویوں کو اس قدر بے کار اور بے فائدہ مخلوق نہ سمجھا جائے کیونکہ مشکل وقت میں کام کرنے والے لوگ یہی ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ تو عافیت اور سہولتوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
ایک کہاوت عام طور پر مشہور ہے کہ ایک دیہاتی نے اپنے دو لڑکوں کو بڑے شوق سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ایک کو ڈاکٹر بنایا اور دوسرے کو وکیل بنا دیا۔ دونوں کا کاروبار خوب چمکا اور شہر میں مکان بنا کر اپنے باپ کو وہاں لے آئے۔ اس دیہاتی کی اپنی برادری اور علاقے میں روایتی دشمن داری بھی تھی۔ ایک روز ایسا ہوا کہ اس کا کوئی روایتی دشمن یا دیہاتی اصطلاح میں ’’شریکاوار‘‘ ادھر آ نکلا۔ سرعام ملاقات ہوئی، کسی پرانی بات پر گفتگو ہوئی، نوبت تکرار تک جا پہنچی۔ اس نے نہ صرف یہ کہ سرعام اس کی بے عزتی کی بلکہ دو چار تھپڑ بھی جڑ دیے۔ اس کو مان تھا کہ میرے دو جوان بیٹے ہیں، اس لیے کوئی پرواہ نہیں، وہ بدلہ لے لیں گے۔ وہ غصہ میں گھر آیا اور بیٹوں کو اپنی بے عزتی اور پٹائی کا قصہ سنا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ دونوں جوان بیٹے غصہ میں اٹھیں گے اور جا کر باپ کی بے عزتی کا بدلہ لیں گے، مگر وہ دونوں کمرہ میں گھس گئے اور باہمی صلاح مشورہ کرنے لگے۔ کافی دیر گزر گئی تو باپ نے اندر جا کر پوچھا کہ تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟ اور ابھی تک تم نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا کہ ابا جان! کوئی فکر نہ کریں، ہم دونوں اتنی دیر سے اسی سوچ و بچار میں لگے ہوئے ہیں کہ آپ کی بے عزتی کرنے والے کے خلاف مقدمہ کس دفعہ کے تحت درج کرایا جا سکتا ہے؟ اور آپ کو جو تھپڑ لگے ہیں اس کو کون سی ضرب شمار کیا جائے؟ جونہی ہمارا مشورہ مکمل ہوا ہم فوراً کارروائی شروع کر دیں گے۔