تحریک انسدادِ سود پاکستان

   
۱۸ مارچ ۲۰۱۴ء

سودی نظام کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں دائر کیس کی سماعت چند روز میں پھر شروع ہونے والی ہے اور مختلف اربابِ علم و دانش اس میں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ کیس گزشتہ تین عشروں کے دوران مختلف سطحوں پر عدالتوں میں زیر سماعت چلا آ رہا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اس سلسلہ میں پہلے بھی ایک واضح فیصلہ دے چکی ہے جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی اور عدالت عظمیٰ نے تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد اس فیصلے کی توثیق کر دی تھی، لیکن نظر ثانی کی ایک اپیل کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت سے اس کی ازسرنو سماعت کے لیے کہا ہے اور وفاقی شرعی عدالت نے اس سلسلہ میں ایک سوالنامہ جاری کر کے ملک بھر کے اہل علم کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔

سودی نظام کے خلاف اس کیس کی نئے سرے سے سماعت شروع ہونے کے بعد لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے متعدد مشاورتی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی حکمت عملی یہ طے کی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں سوال نامہ کے جوابات اور دیگر معاملات میں متفقہ موقف پیش کیا جائے گا، جس کے لیے ”ملی مجلس شرعی“ کا فورم کام کر رہا ہے اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے علاوہ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنماؤں پر مشتمل ایک گروپ سوالنامہ کا مشترکہ جواب مرتب کرنے میں مصروف ہے، جو مکمل ہو جانے پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جبکہ عدالتی سرگرمیوں سے ہٹ کر عوامی سطح پر اس سلسلہ میں بیداری اور واقفیت کو فروغ دینے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے اربابِ فکر و دانش پر مشتمل فورم ”تحریک انسدادِ سود پاکستان“ قائم کر کے اس کی رابطہ کمیٹی مقرر کی گئی ہے اور راقم الحروف کو رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سود کی حرمت اور اس کے نقصانات سے عوام کو آگاہ کیا جائے، اسلامی نظامِ معیشت کی برکات لوگوں کے سامنے لائی جائیں اور سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے لیے رائے عامہ کو منظم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

جہاں تک سودی نظام کے بارے میں ہمارے عقیدہ و ایمان کا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف سود کو حرام قرار دینے کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ سودی کاروبار جاری رکھنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں۔ دستورِ پاکستان میں بھی قوم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ملک و قوم کو سودی نظام سے جلد از جلد نجات دلائی جائے گی، جبکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ملک کے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ ملک کے معاشی سسٹم کی تشکیل میں مغرب کے معاشی فلسفہ و نظام کی پیروی کرنے کی بجائے اسلامی معاشی اصولوں کو سامنے رکھیں اور قرآن و سنت کی بنیاد پر نیا معاشی نظام قائم کریں۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ چھ عشروں سے سودی نظام نہ صرف مسلسل چل رہا ہے، بلکہ عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کی رولنگ کلاس بھی اسے تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو ٹوک فیصلے کے بعد یہ توقع ہو گئی تھی کہ اب ملک کو سودی نظام کی نحوست سے نجات مل جائے گی، لیکن اسے اپیل در اپیل کے چکر میں الجھا کر پھر سے زیرو پوائنٹ پر کھڑا کر دیا گیا ہے اور جن امور و معاملات پر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں تفصیل کے ساتھ بحث ہو چکی ہے، انہی امور پر دوبارہ بحث کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اس معاملہ کو کس کس طرح آگے چلاتی ہے وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا، لیکن عوامی سطح پر سودی نظام کے نقصانات کو واضح کرنے اور اسلامی نظامِ معیشت کی برکات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ایک مستقل دینی و قومی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے لیے ”تحریک انسدادِ سود پاکستان“ دھیرے دھیرے اپنی سرگرمیوں کو منظم کر رہی ہے۔

گزشتہ دنوں مجھے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد میں اس سلسلہ میں مختلف نشستوں میں شرکت کا موقع ملا اور علماء کرام، تاجران، بینکاروں، صنعت کاروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے حضرات سے تبادلہ خیالات ہوا، جس سے لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور تحفظات کا ایک حد تک اندازہ ہوا۔

۱۵ مارچ کو جی الیون اسلام آباد کی جامع مسجد ابوبکر صدیقؓ میں مغرب کی نماز کے بعد ایک عمومی نشست ہوئی، جس کا اہتمام پاکستان شریعت کونسل اسلام آباد کے امیر مولانا مفتی محمد سیف الدین نے کیا تھا۔ راقم الحروف نے سود کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی حوالہ دیا کہ دنیا میں معاشی عدمِ توازن اور ناہمواری جو خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، آج کے معاشی ماہرین اس کی سب سے بڑی وجہ سود بتاتے ہیں اور سودی نظام کے تلخ نتائج کو دیکھتے ہوئے اب مغربی معاشی ماہرین اور بینک بھی غیر سودی نظام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

اسی طرح سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ انہوں نے ایک کمیٹی اس مقصد کے لیے قائم کی تھی کہ آج کی دنیا کا معاشی نظام جس بحران سے دوچار ہے اس کے سدباب کا جائزہ لیا جائے اور متبادل حل تجویز کیا جائے۔ ویٹی کن سٹی کے سرکاری ترجمان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اٹالین معاشی ماہرین کی اس کمیٹی نے جو رپورٹ دی اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو بحران سے نکالنے اور صحیح ٹریک پر لانے کے لیے ان معاشی اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جو قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں۔

میں نے عرض کیا کہ اگر مغربی دنیا سودی نظام کے تلخ نتائج کو بھگتنے کے بعد قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کی طرف رجوع کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے تو ہمیں یہ کام اس سے پہلے کرنا چاہیے تھا اور یہ ہماری ملی ذمہ داری ہے کہ قرآن کریم کے معاشی اصولوں کی بنیاد پر ایک صحیح اور متوازن معاشی نظام کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔

میری گفتگو کے بعد سوالات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ میرے لیے غیر متوقع تھا۔ میں تو اصولی طور پر سود کے خاتمہ اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی بات کر رہا تھا، جبکہ بہت سے دوست معروضی صورت حال میں غیر سودی بینکاری کے حوالہ سے پائی جانے والی مشکلات اور الجھے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنے کا تقاضہ کر رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میرا نہ تو فتویٰ کی لائن سے تعلق ہے اور نہ ہی میں بینکاری سسٹم سے آگاہ ہوں، اس لیے اس قسم کے سوالات کے جوابات اس شعبہ کو سمجھنے والے مفتیان کرام ہی دے سکتے ہیں۔ بہرحال سوال و جواب کی یہ محفل میرے لیے ایک اچھا تجربہ تھا، جس سے اس کام کی مشکلات و مسائل کو سمجھنے میں خاصی مدد ملی اور عام لوگوں کی دلچسپی کا بھی اندازہ ہوا، جو سودی نظام کے خاتمہ اور صحیح بنیادوں پر اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کے صرف خواہشمند نہیں، بلکہ اس کے لیے مضطرب اور بے چین بھی نظر آتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter