(محرم الحرام کے آخری عشرہ کے دوران جامع مسجد خلفاء راشدینؓ (چوک فاروق اعظمؓ، کھیالی دروازہ، گوجرانوالہ) میں ’’تحفظ ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ‘‘ کے عنوان سے ہر سال دو روزہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کا آغاز اٹھارہ سال قبل خطیبِ شہر مولانا زاہد الراشدی، علاقہ کے ممتاز سماجی راہنما خلیفہ محمد اسلم (کونسلر میونسپل کارپوریشن) اور ان کے رفقاء نے کیا تھا۔ اس کانفرنس سے ہر سال اہل سنت کے تینوں مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کے سرکردہ علمائے کرام خطاب کرتے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ اس سال کانفرنس سے سپاہ صحابہؓ پاکستان کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی، مولانا سید چراغ الدین شاہ، علامہ عبد الوحید ربانی، مولانا محمد اعظم، مولانا عبد الوکیل خانپوری، قاری عبد الحفیظ فیصل آبادی، قاری طفیل احمد رضوی، قاری جاوید اختر فیصل آبادی، مولانا محمد نعیم بٹ، مولانا محمد ریاض خان سواتی اور دیگر علمائے کرام نے خطاب کیا۔ ۱۵ مئی ۱۹۹۹ء کو کانفرنس کی پہلی نشست سے مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے خلیفہ محمد اسلم صاحب اور ان کے رفقاء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اٹھارہ سال قبل جس نیک کام کا انہوں نے آغاز کیا تھا اسے وہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے، خدا کرے کہ یہ عمل تا دیر جاری رہے اور جن مقاصد کے لیے یہ کام شروع کیا گیا تھا ان کی تکمیل کے لیے ہم عملاً آگے بڑھ سکیں، آمین۔
یہ اجتماع حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے فضائل و مناقب اور خدمات کے تذکرہ کے لیے منعقد ہوتا ہے اور آج بھی ہم اسی مقصد کے لیے جمع ہیں۔ صحابہ کرامؓ ہوں، اہل بیتؓ ہوں یا دیگر بزرگان دینؒ، ان کے تذکرہ اور یاد کے بہت سے فوائد و ثمرات ہیں۔ اس سے ہم اجر و ثواب حاصل کرتے ہیں، ان بزرگوں کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے نقشِ پا سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور میرے خیال میں سب سے بڑا مقصد اور فائدہ یہی ہے کہ ہم ان سے راہنمائی حاصل کریں اور ان صاف و شفاف آئینوں میں اپنے چہرے کو دیکھ کر اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اپنی اصلاح کر سکیں۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے آج ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس وقت عالمی اور ملکی سطح پر ہم جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں اور جن مشکلات و مصائب نے ہمیں گھیر رکھا ہے ان میں ان بزرگوں سے ہمیں کیا راہنمائی ملتی ہے اور اسی حوالہ سے آج کی محفل میں کچھ مختصر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
آج ہمیں ملکی اور قومی سطح پر جس سنگین مسئلہ کا سامنا ہے وہ احتساب کا مسئلہ ہے، لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری ہے اور ہم ایک دوسرے کا احتساب نہیں کر پا رہے۔ آئیے احتساب کے حوالہ سے امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے اسوہ سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے سریر آرائے خلافت ہونے کے بعد اپنے عمال، گورنروں اور افسران کو یہ ہدایت جاری کر دی تھی کہ کوئی حاکم یا افسر ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، باریک لباس نہیں پہنے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا اور اپنے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ اس دور میں معاشرتی امتیاز کی علامتیں تھیں جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنے حکام اور افسروں کے لیے ممنوع قرار دے دیا۔ میں اس کی تعبیر یوں کیا کرتا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے وی آئی پی کلچر کی نفی کر دی اور ملک کے حاکموں اور افسروں کو پابند کر دیا کہ وہ خوراک، لباس، رہائش اور سواری میں عام شہریوں سے الگ کوئی امتیازی حیثیت اختیار نہیں کریں گے۔ حضرت عمرؓ نے یہ حکم نافذ کیا اور اس پر عمل بھی کر کے دکھایا حتیٰ کہ کہیں سے خلاف ورزی کی اطلاع ملی تو سخت تادیبی کارروائی کی۔ ایک دفعہ انہیں شکایت ملی کہ کوفہ کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنے گھر کے دروازے پر ایک چھتا سا بنا رکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ سے اپنا نمائندہ بھیجا، اس دور میں اس قسم کی ڈیوٹی عام طور پر حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ سرانجام دیا کرتے تھے میں جن کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے سب سے پہلے آئی جی پولیس تھے۔ وہ کوفہ گئے اور گورنر ہاؤس کا معائنہ کیا، شکایت درست تھی کہ گورنر ہاؤس کے دروازے پر ایک چھتا سا بنا ہوا تھا جو امیر المؤمنین کی ہدایت کے منافی تھا۔ چنانچہ حکم کے مطابق امیر المؤمنین کے نمائندے نے اس چھتے کو آگ لگا دی اور گورنر کوفہ کو آگ کے دھوئیں سے پتہ چلا کہ ان کے دروازے کا چھتہ نذرِ آتش کیاجا چکا ہے۔ اسی طرح ایک اور گورنر حضرت عیاض بن غنمؓ کے بارے میں شکایت ملی کہ انہوں نے باریک لباس پہننا شروع کر دیا ہے، وہ جزیرہ (مصر) کے گورنر تھے۔ حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ سے نمائندہ بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ اگر گورنر جزیرہ نے عام لوگوں سے مختلف لباس پہن رکھا ہو تو اسی حالت میں انہیں مدینہ منورہ لے آؤ۔ تفتیشی افسر جزیرہ پہنچا اور گورنر صاحب کو دیکھا کہ واقعی انہوں نے باریک لباس پہن رکھا ہے، چنانچہ انہیں اسی کیفیت میں مدینہ منورہ لے جایا گیا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں سرزنش کی اور بطور سزا بکری کے بالوں سے بنا ہوا چغا پہنا کر چھ ماہ تک بیت المال کی بکریاں چرانے کا حکم دیا۔ گورنر جزیرہ حضرت عیاض بن غنمؓ نے یہ سزا بھگتی اور اس کے بعد پھر اپنے عہدہ پر بحال ہو کر جزیرہ واپس چلے گئے۔
احتساب اس کا نام ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی واضح مثال پیش کی۔ لیکن وہ یہ احتساب اس لیے کر پائے تھے کہ قواعد و ضوابط کی خود بھی پابندی کرتے تھے اور انہوں نے خود کو اس سے مستثنیٰ نہیں رکھا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ ایک بار بیمار ہوگئے، انتڑیوں میں سوزش تھی، معالجوں نے دیکھا تو کہا کہ خشک روٹی کھاتے کھاتے انتڑیوں میں خشکی ہوگئی ہے چند روز زیتون کا تیل استعمال کریں تو شکایت دور ہو جائے گی۔ فرمایاکہ میرے پاس تو زیتون کا تیل استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ حضرت! بیت المال میں زیتون کا تیل موجود ہے وہاں سے لے لیں۔ بیت المال کے انچارج کو بلایا اور پوچھا کہ سرکاری خزانے میں زیتون کا تیل موجود ہے؟ اس نے کہا کہ خاصی مقدار میں ہے۔ امیر المؤمنینؓ نے دریافت کیا کہ مدینہ منورہ کے سب لوگوں میں تقسیم کیا جائے تو میرے حصے میں کتنا آئے گا؟ بیت المال کے انچارج نے جواب دیا کہ وہ تو بہت تھوڑا ہوگا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ جتنا مرضی گڑگڑاتا رہ، ملے گا وہی جو تیرا حصہ بنتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جس نے حضرت عمرؓ کے کوڑے سے وسیع و عریض ملک کے ہر افسر اور ہر شہری کو لرزہ براندام کر رکھا تھا۔ آج بھی اگر ہم احتساب کرنا چاہتے ہیں تو اسی راستے پر چلنا ہوگا اور اسی اسوہ کو اپنانا ہوگا۔
یہ تو میں نے ملکی مسائل کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، ایک بات عالمی حال کے پس منظر میں بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم ممالک نے باہمی تنازعات میں کیا طرز اختیار کر رکھا ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ تنازعہ اور محاذ آرائی حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان رہی ہے۔ دونوں آمنے سامنے تھے، ان میں جنگ بھی ہوئی اور ایک دوسرے سے مخاصمت اور محاذ آرائی بھی رہی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے مگر اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی ہے کہ جب ان کی باہمی جنگ سے ایک تیسری قوت نے فائدہ اٹھانا چاہا تو اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ روم اس وقت کا امریکہ تھا اور سپر پاور شمار ہوتا تھا۔ روم کے قیصر نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی باہمی جنگ کو دیکھتے ہوئے حضرت معاویہؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں حضرت معاویہؓ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ آج کا زمانہ ہوتا تو خدا جانے کیا کچھ ہو جاتا مگر حضرت معاویہؓ نے روم کے حکمران کو جو جواب دیا وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن عنوان ہے اور آج ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ انہوں نے روم کے قیصر کو جواب دیا کہ ان کی اور حضرت علیؓ کی لڑائی بھائیوں کی لڑائی ہے اور اس سے کسی اور کو فائدہ اٹھانے کا نہیں سوچنا چاہیے۔ روایات کے مطابق حضرت معاویہؓ کے جواب میں یہ جملہ بھی شامل تھا کہ ’’اگر رومی لشکر نے حضرت علیؓ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو حضرت علیؓ کے پرچم تلے رومی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے جو پہلا سپاہی شہید ہوگا وہ معاویہؓ ہوگا‘‘۔ حضرت معاویہؓ کے اس تاریخی جواب نے بادشاہ روم کے حوصلے پست کر دیے اور وہ مسلمانوں کے باہمی جھگڑے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔
ان گزارشات کے بعد ایک بار پھر یہ عرض کرتے ہوئے آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ حضرات صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ اور بزرگان دینؒ کے تذکرہ کا اصل مقصد ان سے راہنمائی حاصل کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔