حالات حاضرہ ۔ پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس

   
تاریخ : 
۲۳ نومبر ۲۰۱۳ء

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی گزشتہ دو روز سے فیصل آباد میں ہیں۔ ۱۹ نومبر کو انہوں نے کونسل کے قریب قریب کے سرکردہ حضرات کو ہنگامی طور پر موجودہ حالات کے حوالہ سے مشاورت کے لیے فیصل آباد طلب کر لیا اور ڈجکوٹ روڈ پر قرآن سنٹر اور مسجد مبارک میں مشاورت کی مختلف نشستیں ہوئیں۔ امیر محترم نے مشاورتی نشست کی صدارت کی اور اس کے بعد وہاں جمع ہو جانے والے علماء کرام اور دیگر حضرات سے خطاب بھی کیا۔

اجلاس کے شرکاء میں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا عبد الرزاق، حاجی احمد یعقوب چودھری، حافظ محمد ریاض چشتی قادری، حافظ محمد اکرام اختر، مفتی سعید احمد، قاری لائق علی، مولانا محمد خان، حافظ محمد عمیر چنیوٹی، مولانا احسان اللہ فاروقی، مولانا محمد صابر سرھندی، مولانا قاری محمد نعیم سعدی، مولانا قاری عبید اللہ عامر، اور مولانا فیض احمد سلیمی بطور خاص قابل ذکر ہیں، جبکہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان شریعت کونسل کا جو موقف طے کیا گیا وہ درج ذیل ہے:

سانحۂ راولپنڈی ہر لحاظ سے انتہائی قابل مذمت ہے اور تشدد و بربریت کی بد ترین مثال ہے جس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

حکومت نے اس سانحہ کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے جو ایک مناسب قدم ہے مگر پاکستان شریعت کونسل کی رائے میں اس کمیشن کو سانحۂ راولپنڈی کے اسباب و عوامل کے تعین اور اس کے ذمہ دار حضرات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ اور اس کے ملک کے امن کے لیے تباہ کن صورت اختیار کرجانے کے اسباب و عوامل اور پس پردہ محرکات کا جائزہ لے کر ان کے سدباب کے لیے بھی سفارشات پیش کرنی چاہئیں۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے اور سنی شیعہ کشمکش میں خوفناک اضافے کے اسباب و عوامل کے تعین کو بھی اس کی ذمہ داری میں شامل کیا جائے۔

مسجد و مدرسہ اور مارکیٹ کی سرکاری خرچ پر تعمیر جلد از جلد شروع کی جائے اور ان اداروں کے ذمہ دار حضرات کو اعتماد میں لے کر تعمیر نو کا پروگرام طے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان شریعت کونسل یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کلاتھ مارکیٹ کو محکمہ اوقاف سے واگزار کر کے اسے دارالعلوم تعلیم القرآن کو واپس کیا جائے۔

محرم الحرام کے ان جلوسوں کی وجہ سے پورے ملک کی انتظامی مشنری مسلسل دس دن تک اسی کام کے لیے وقف رہتی ہے۔ بہت سے ضروری امور معطل ہو جاتے ہیں، کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور کم و بیش دو ہفتے تک خطرات و خدشات کی دھند ملک بھر کی فضا میں چھائی رہتی ہے۔ اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پہلے سے زیادہ خطرات اور بد اَمنی کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل تجویز کرتی ہے کہ بد اَمنی، خوف و ہراس اور فرقہ وارانہ تصادم کا باعث بننے والے جلوسوں کو عبادت گاہوں اور چار دیواری کے دائرہ میں محدود کیا جائے اور گلیوں بازاروں میں ایسے مذہبی جلوسوں کے گزرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔

اس سانحہ میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ضلعی حکام کی غفلت بھی اس کا بڑا سبب ہے اس لیے سانحہ کے ملزمان اور پس پردہ افراد و محرکات کے ساتھ ضلعی حکام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے اور حکومت کو تمام ملزمان اور ذمہ دار حضرات کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے۔ سانحۂ راولپنڈی کے موقع پر حالات کو کنٹرول کرنے اور رائے عامہ کی صحیح راہ نمائی کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام، وفاق المدارس العربیہ پاکستان، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان، اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان اور جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ کے راہ نماؤں نے جس بیدار مغزی اور حوصلہ و محنت کے ساتھ کردار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اور پاکستان شریعت کونسل ملک کے تمام دینی حلقوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ان اداروں اور جماعتوں کے ساتھ اس سلسلہ میں بھرپور تعاون جاری رکھیں۔

اجلاس میں میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا بھی نوٹس لیا گیا اور کہا گیا کہ ملک بھر میں اضطراب و بے چینی پھیلنے اور مختلف شہروں میں بد اَمنی کی فضا پیدا ہونے میں نیشنل میڈیا کی غفلت اور سوشل میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش کا بھی بڑا دخل ہے، اس لیے اس بات کا نوٹس لینے کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان شریعت کونسل محسوس کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کو سانحۂ راولپنڈی سے پیدا شدہ صورت حال میں ہم آہنگی اور باہمی مفاہمت کے ساتھ قوم کی راہ نمائی کرنی چاہیے اور خاص طور پر دیوبندی مسلک کی جماعتوں اور مراکز کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ و مشاورت کی انتہائی ضرورت ہے اور تمام جماعتوں کے راہ نماؤں کو اس بارے میں خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

اجلاس میں مختلف مکاتبِ فکر کی طرف سے ’’تحریک انسدادِ سود پاکستان‘‘ کے مشترکہ فورم کے قیام کا خیر مقدم کیا گیا اور ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک کی معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے اور سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے ایسی تحریک کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔پاکستان شریعت کونسل اس فورم کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور اس کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گی۔ راقم الحروف نے ’’تحریک انسدادِ سود پاکستان‘‘ کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کے طور پر تحریک کے مرحلہ وار پروگرام کے مختلف مراحل سے شرکاء کو آگاہ کیا اور اس موقع پر فیصل آباد کے ممتاز دانش ور جناب میاں محمد طاہر نے بھی سودی نظام کے خلاف جدوجہد کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

اجلاس میں سانحۂ راولپنڈی کے شہداء کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دُعا کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ شہداء اور زخمیوں کے خاندانوں کی معقول مالی امداد کا فوری طور پر اعلان کیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter