حضرت مولانا مفتی محمودؒ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاذ، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب اور شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے۔ اس لیے ان کی ان متنوع اور گوناگوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات و تخصصات کو جداگانہ طور پر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے۔ اور شاید یہ ان کے ساتھ ناانصافی بھی ہو کہ انہیں صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے۔
سیاست زندگی بھر حضرت مفتی صاحبؒ کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، انہوں نے سیاست کو مشغلہ، ہابی یا آج کے سیاسی پس منظر میں کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ مشن اور فریضہ کے طور پر اختیار کیا اور اس کا حق ادا کر کے دکھایا۔ ان کا شمار ملک کے مقتدر اور کامیاب سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کی سیاسی قیادت کا لوہا ان کے معاصر بلکہ سینئر سیاستدانوں نے بھی مانا۔ لیکن آج سیاست اور سیاستدانوں کی اصطلاحات کے گرد مفہوم و تعارف کے جو نامانوس دائرے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور جن لوازمات نے ایک سیاستدان کے لیے ناگزیر حیثیت اختیار کر لی ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا مفتی محمودؒ کو ایک سیاسی قائد کے طور پر پیش کرتے ہوئے طبیعت ہچکچا رہی ہے اور دل کو خوف محسوس ہو رہا ہے کہ کل قیامت کے روز مفتی صاحب گریبان پکڑ کر یہ نہ کہہ دیں کہ ’’ظالم! تم تو مجھے جانتے تھے، میری خلوت و جلوت سے واقف تھے، تم نے مجھے کس صف میں کھڑا کر دیا؟‘‘
مجھے مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ ایک کارکن اور پھر ٹیم کے رکن کے طور پر طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا ہے جو کم و بیش دو دہائیوں پر محیط ہے۔ میں نے مفتی صاحب کو علماء کی صف میں انہیں سیاست کے اسرار و رموز سمجھاتے اور ان کے لیے انہیں تیار کرتے دیکھا ہے، سیاستدانوں کے ساتھ معاملات طے کرتے اور ان سے اپنا حق وصول کرتے ہوئے دیکھا ہے، عوامی اجتماعات میں لوگوں کو ابھارتے اور ان کے جذبات کو جگاتے دیکھا ہے، اہل فکر و دانش کی محافل میں اسلام کی حکیمانہ ترجمانی کرتے اور اسلامی احکام و قوانین پر اعتراضات کے مسکت جوابات دیتے ہوئے دیکھا ہے، کہنہ مشق صحافیوں کے گھیرے میں ان کے تند و تیز سوالات کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے دیکھا ہے، مسند تدریس پر قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے علوم و معارف کو آج کی زبان و اسلوب میں پیش کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور نصف شب تک جلسہ سے خطاب کے بعد علالت اور تھکاوٹ کے باوجود سحری کے وقت جائے نماز پر قبلہ رو بیٹھے اللہ اللہ کرتے اور آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک مولانا مفتی محمودؒ کا تعارف محض ایک سیاسی قائد اور سیاستدان کا تعارف نہیں ہے بلکہ میں ان کے ایک کارکن اور ساتھی کے طور پر انہیں اس سے بالکل مختلف حیثیت او رنظر سے دیکھتا ہوں اور ان سطور میں ان کی اسی حیثیت کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میرے نزدیک مفتی صاحبؒ کی بنیادی حیثیت ایک عالم دین کی ہے مگر روایتی عالم دین نہیں بلکہ وہ عالم جس کے بارے میں امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ رجل یدری ویدری انہ یدری فھو عالم فاتبعوہ کہ وہ شخص جو علم رکھتا ہے اور علم کی ذمہ داری کا احساس بھی رکھتا ہے وہی صحیح معنوں میں عالم ہے اس کی پیروی کرو۔
مولانا مفتی محمودؒ ایک پختہ کار عالم دین تھے اور اس حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے نہ صرف کماحقہ آگاہ تھے بلکہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آخر دم تک کوشاں رہے۔ حتٰی کہ اہل علم ہی کی ایک محفل میں علمی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے سیاست کو اپنے انہی فرائض کی انجام دہی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ کے طور پر اختیار کیا تھا اور اسے منزل یا مقصود بنانے کی بجائے آخر وقت تک وسیلہ اور ذریعہ کے درجے میں ہی رکھا۔ مفتی صاحبؒ ایک عالم دین کے طور پر اس نظریاتی تحریک کے نمائندہ اور باشعور راہنما تھے جسے ولی اللہی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے اس خطہ ارض میں مسلمانوں کے دینی تشخص، علوم و روایات اور ثقافت و تمدن کے تحفظ اور آزادی کے حصول کے لیے کم و بیش دو صدیوں پر محیط طویل جنگ لڑی اور دینی درسگاہوں کے ساتھ ساتھ جیل کی کال کوٹھڑیوں، پھانسی کے پھندوں اور میدان جہاد کے معرکوں کو بھی رونق بخشی۔ مفتی صاحبؒ نے اسی درسگاہ حریت سے تربیت حاصل کی اور انہی اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ وہ اپنے اساتذہ کے صرف علوم کے وارث نہیں تھے بلکہ ان کی جدوجہد اور روایات کے بھی امین تھے اور مفتی صاحبؒ کی زندگی بھر کی تگ و تاز اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے اس وراثت و امانت کی حفاظت اور اسے اگلی نسل تک پہنچانے میں کوئی کمی اور کوتاہی اپنی استطاعت کی حد تک روا نہیں رکھی۔
مفتی صاحبؒ کی جدوجہد کا سب سے بڑا ہدف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری رہا ہے۔ انہیں زندگی میں جب بھی کوئی فیصلہ کن موقع ملا انہوں نے اسلام کے لیے اس موقع کو استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایک ہوشیار سیاستدان کی طرح انہوں نے موقع کی نزاکت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ میں اس سلسلہ میں تین مواقع کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
- ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام کو صوبہ سرحد کی اسمبلی میں چالیس کے ایوان میں چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دو آزاد ارکان الیکشن کے بعد جمعیۃ میں شامل ہوگئے تھے۔ اس طرح جمعیۃ کے پاس چالیس میں سے چھ سیٹیں تھیں اور صوبائی حکومت کے لیے اصل مقابلہ نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے درمیان تھا جن کے پاس غالباً پندرہ اور گیارہ سیٹیں تھیں۔ خان عبد الولی خان اور عبد القیوم خان صوبائی سیاست میں روایتی حریف چلے آرہے تھے اور ایک دوسرے کو صوبائی حکمران کے طور پر قبول کرنا دونوں میں سے کسی کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ اس لیے دونوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے موقع کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ کر لیا اور تعاون کے لیے جو شرائط عائد کیں ان میں وفاق میں دستور ساز اسمبلی میں دستور پاکستان کی ترتیب و تدوین کے دوران اسلامی امور میں جمعیۃ سے تعاون، جبکہ صوبہ میں اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ خان عبد الولی خان اور خان عبد القیوم خان دونوں نے بظاہر ایک دوسرے کے خوف میں یہ شرطیں منظور کر لیں۔ اب جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے نئی شرط عائد کر دی گئی کہ صوبہ میں وزیراعلیٰ بھی جمعیۃ کا ہوگا، یہ شرط بھی دونوں نے منظور کر لی۔ لیکن جمعیۃ علماء اسلام نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا اور نہ صرف مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بن گئے بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اپنے منشور اور پارٹی مزاج کے علی الرغم دستور ساز اسمبلی میں اسلامی معاملات میں جمعیۃ کا ساتھ دینے کی پابند ہوگئی۔ جبکہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی بیس میں سے تین نشتیں جیتنے والی جمعیۃ علماء اسلام نیشنل عوامی پارٹی کے سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ شریک اقتدار ہوئی۔ تین میں سے ایک ممبر ڈپٹی اسپیکر بنا اور دوسرا صوبائی وزیر کی حیثیت سے حکومت میں شامل ہوا۔ مفتی صاحب نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اسلامی اصطلاحات کے نفاذ اور سادگی کے ساتھ حکومت کرنے کی جو مثال اس دس ماہ کے دور میں قائم کی وہ ان کی شخصیت اور جمعیۃ کی تاریخ کاا یک نمایاں باب ہے۔ اور یہ پارٹی لیڈر کے طور پر ان کی معاملہ فہمی، سیاسی تدبر اور موقع شناسی کا ایک شاندار مظاہرہ بھی ہے۔
- دوسرا موقع دستور ساز اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری کا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہونے والی اس دستور ساز اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی اور اس کے منشور میں سوشلزم کا عنصر نمایاں تھا لیکن مولانا مفتی محمودؒ نے دستور ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر جس سیاسی ہوشمندی کا ثبوت دیا یہ اسی کا ثمر ہے کہ دستور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے کے علاوہ ملک کے تمام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی ضمانت موجود ہے جو سیکولر لابیوں کے ایجنڈے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں دیگر مذہبی شخصیات بھی موجود تھیں اور دستور میں زیادہ سے زیادہ اسلامی دفعات شامل کرانے کے لیے مسلسل کوشاں تھیں لیکن فیصلہ کن حیثیت مولانا مفتی محمودؒ کو حاصل تھی۔ وہ اس طور پر کہ دستور ساز اسمبلی میں بلوچستان سے چار ارکان منتخب ہوئے تھے جن میں سے تین نیشنل عوامی پارٹی کے تھے اور ایک کا تعلق جمعیۃ علماء اسلام سے تھا۔ یہ چار کے چار مفتی صاحب کے زیر اثر تھے، اور کہنے کو یہ چار تھے لیکن ایک مکمل صوبے اور وفاق کی ایک اکائی کی نمائندگی کر رہے تھے۔گویا ان چار ارکان کی صورت میں مفتی صاحبؒ کے پاس وفاق کی ایک مکمل اکائی کی قوت موجود تھی جن کی مرضی کے بغیر کوئی دستور پاس نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی اکثریت کے زعم میں اپنے منشور اور نظریات کے مطابق دستور تشکیل دینے پر مصر تھی اور ایوان میں من مانی کر رہی تھی۔ چنانچہ مفتی صاحب کی قیادت میں اپوزیشن نے دستور ساز اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا جو کہ صرف اپوزیشن کا بائیکاٹ نہیں تھا بلکہ اس میں وفاق کی ایک مکمل اکائی کا بائیکاٹ بھی شامل تھا۔ اس پر بھٹو حکومت مذاکرات پر مجبور ہوئی اور ان مذاکرات میں حکومت کو اپوزیشن کے دیگر مطالبات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان اسلامی دفعات کو بھی دستور کے حصہ کے طور پر قبول کرنا پڑا جو آج بھی دستور میں شامل ہیں اور جنہیں پاکستان کے دستور سے نکالنے اور غیر موثر بنانے کے لیے نہ صرف ملک کی سیکولر لابیاں بلکہ عالمی استعماری قوتیں بھی مسلسل پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔ - تیسرا مرحلہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی حکومت میں شامل ہونے اور اس شمولیت کو نفاذ اسلام کے لیے ہر ممکن طور پر مفید اور نتیجہ خیز بنانے کا تھا۔ مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد نے شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ شمولیت سیاسی طور پر درست تھی یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس پر مستقل گفتگو کی ضرورت ہے۔ البتہ اس مرحلہ پر صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مارشل لاء حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کرنے کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا جو اجلاس راولپنڈی میں حکومت میں شامل ہونے سے پہلے ہوا تھا اس میں راقم الحروف نے ضیاء حکومت میں شمولیت کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ اس پر طویل بحث کی تھی اور شمولیت کے حق میں مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے خلاف اپنا اختلافی نوٹ بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ تاہم قومی اتحاد اور اس کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام نے بھی حکومت میں شمولیت اختیار کی اور مولانا مفتی محمودؒ عوامی جلسوں میں اس شمولیت کا یہی جواز پیش کرتے رہے کہ ہمارا مقصد صرف اسلام کا نفاذ ہے وہ کسی بھی ذریعے سے آئے ہم اسے قبول کریں گے۔ لاہور کے ایک اجلاس میں جو طویل خطاب کیا اس میں انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ سیاسی عمل، جمہوری جدوجہد اور انتخابات ہمارا مقصد نہیں بلکہ ذریعہ ہیں جن کے ذریعے ہم نفاذ اسلام کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں اگر اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ مل جاتا ہے اور ہم اس راستے سے منزل تک جلدی پہنچ سکتے ہیں تو ہمیں اسے قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے اور ہم نے اپنے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگاتے ہوئے مارشل لاء حکومت میں اسی لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اگر اس راستہ سے اسلام نافذ ہو سکتا ہو تو اس کو بھی آزما لیا جائے۔
چنانچہ ضیاء حکومت کی طرف سے حدود آرڈیننس، وفاقی شرعی عدالت اور دیگر امور کے بارے میں چند اسلامی اصلاحات کے نفاذ پر مفتی صاحب نے نہ صرف ان اقدامات کی حمایت میں لاہور میں بہت بڑے جلوس کی قیادت کی بلکہ ملک بھر میں بیسیوں اجتماعات میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے ان اقدامات کا دفاع کیا۔ نفاذ اسلام کے لیے مارشل لاء حکومت کے یہ اقدامات موثر کیوں نہ ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر کھلے دل سے بحث ہونی چاہیے لیکن اس حوالہ سے اس موقع پر یہ عرض کر رہا ہوں کہ مولانا مفتی محمودؒ نے نفاذ اسلام کی جدوجہد کے قائد کی حیثیت سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جو راستہ بھی ممکن نظر آیا اسے استعمال کرنے میں تامل سے کام نہیں لیا اور اس کے لیے اپنے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
الغرض حضرت مولانا مفتی محمودؒ ایک روایتی سیاسی رہنما نہیں بلکہ تحریک ولی اللہی کے باشعور نمائندے اور پاکستان کے نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ایک ہوشمند قائد تھے جنہوں نے اپنی سیاسی قوت کو محدود اور کم ہونے کے باوجود اپنے مقاصد کے لیے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ اس میں جہاں ان کے علمی تبحر، سیاسی تدبر، جرأت و بے باکی اور حکمت و دانش کا نمایاں حصہ ہے وہاں میرے نزدیک سب سے بڑا کردار ان کی اس اخلاقی بلندی کا ہے کہ وہ کسی حکومت یا سیاسی قوت کے اس درجہ میں احسان مند نہیں تھے کہ اس سے اپنے مشن اور پروگرام کی بات کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب یا رکاوٹ محسوس ہو۔ وہ بے لوث اور قناعت پسند سیاسی رہنما تھے، اسی صاف دامنی کی وجہ سے انہیں ملک کے علمی، دینی اور سیاسی حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور اسی اعتماد نے اس پیش رفت اور کامیابیوں کی راہ ہموار کی جو ان کی زندگی کے نمایاں ابواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کا آج کے دور میں ایک صحیح اور آئیڈیل نمونہ تھے، خدا کرے کہ ان کی روایات اور طرز سیاست کو اگلی نسل تک اصلی حالت میں منتقل کرنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ آمین یا رب العالمین۔