برادر اسلامی ملک ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ میں اس وقت جو صورتحال ہے اس کے بارے میں حرمین شریفین سے عقیدت اور اس کی وجہ سے سعودی عرب سے محبت رکھنے والا دنیا کر ہر مسلمان پریشان بلکہ مضطرب ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کے عنوان سے شاہی خاندان میں باہمی کشمکش، گرفتاریوں، کم از کم ایک شہزادہ کے شہید ہو جانے اور متعدد سرکردہ علماء کرام کے زیر حراست ہونے کی خبریں اس پریشانی اور اضطراب میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ مگر اس حوالہ سے کچھ عرض کرنے سے قبل سعودی سلطنت کے قیام اور اس کے پس منظر کے بارے میں چند زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری دکھائی دیتا ہے۔
فیروز سنز لاہور کے شائع کردہ ’’اردو انسائیکلو پیڈیا‘‘ کے مقالہ نگار رقم طراز ہیں:
’’سعودی عرب کی جدید تاریخ کا آغاز اٹھارہویں صدی سے ہوتا ہے۔ ۱۷۴۷ء میں سعودی خاندان کے ایک بزرگ محمد بن عبد الوہاب نے جزیرہ نمائے عرب کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا اور نجد میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ ۱۸۱۱ء میں ترک گورنر محمد علی نے نجد پر چڑھائی کر کے وہابی تحریک کو کچل دیا۔ سولہویں صدی کے اوائل سے جزیرہ نمائے عرب سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا۔ کچھ عرصے بعد عارضی طور پر اس تحریک کا احیاء ہوا لیکن جلد ہی رشید خاندان نے وسطی عرب پر قبضہ کر کے خاندان سعود کو جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا۔ ۱۹۰۲ء میں عبد العزیز بن سعود نے ریاض فتح کیا اور ۱۹۱۳ء میں الاحصاء کا علاقہ بھی ترکوں سے آزاد کرا لیا۔ ۱۹۲۴ء میں حسین شریف مکہ نے حجاز میں اپنی خلافت کا اعلان کیا۔ ابن سعود نے شریف مکہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور حجاز بھی خاندان سعود کے زیر تسلط آگیا۔ ۱۹۲۷ء میں نجد پر قبضہ ہوگیا۔ ۱۹۳۲ء میں ابن سعود نے نجد، الاحصاء اور حجاز پر مشتمل سلطنت سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔‘‘
جبکہ ’’شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘‘ کے مقالہ نگار نے سعودی عرب کا تعارف یوں کرایا ہے:
’’سرکاری نام ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘، اس کا رقبہ ۸ لاکھ ۶۵ ہزار مربع میل یعنی ۱۹ لاکھ ۶۰ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ موجودہ آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے، مسلمانوں کی تعداد سو فیصد ہے، شرح خواندگی ۶۲ فیصد ہے، دارالحکومت ریاض کی آبادی ۳۰ لاکھ کے قریب ہے۔ سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے بیشتر علاقے پر مشتمل ہے، اس کے مغرب میں بحیرۂ قلزم اور مشرق میں خلیج عرب واقع ہیں۔ اردن، عراق، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات، سلطنت عمان، یمن اور بحرین پڑوسی ممالک ہیں اور ان سب کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں۔ سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا ریگستان ’’ربع الخالی‘‘ واقع ہے۔‘‘
مذکورہ مقالہ نگار سعودی عرب کی سیاسی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۵۱۷ء میں خلافت عثمانیہ نے اس پر اپنا اقتدار قائم کیا۔ ۱۷۱۵ء میں محمد بن عبد الوہاب نے اسلام کی تطہیر و اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی۔ ۱۸۱۸ء میں وہابیوں کو عثمانیوں نے اپنے حلیف مصریوں کے ساتھ مل کر اقتدار سے محروم کر دیا اور یوں وہابی تحریک کو ضعف پہنچا۔ انیسویں صدی کے اوائل ۱۸۱۱ء میں وہابی تحریک کو مصر کے فوجی دستے نے محمد علی کی قیادت میں کچل دیا تھا۔ کچھ عرصہ کے لیے عارضی طور پر تحریک پھر ابھرتی ہے لیکن سے کچل دیا جاتا ہے۔ ۱۹۰۲ء تا ۱۹۳۲ء جلاوطن وہابی لیڈر ابن مسعود ترکی کے صوبے احساء، حجاز اور عسیر کے علاقوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور سعودی عرب کی نئی مملکت قائم کرتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کے قیام کے پس منظر اور سیاسی تاریخ کے بارے میں یہ چند معلومات وہ ہیں جو فیروز سنز اردو انسائیکلو پیڈیا اور شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگاروں نے فراہم کی ہیں جن کی صحت و سقم کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر ان سے ایک ہلکا سا نقشہ ضرور سامنے آجاتا ہے۔ جبکہ ہماری معلومات کے مطابق پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر جب عرب علاقوں میں خلافت عثمانیہ کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا تو جزیرہ نمائے عرب کی صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف معروف مصلح بزرگ الشیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ تعالیٰ کی اصلاحی تحریک زوروں پر تھی جو توحید کے فروغ اور رسوم و بدعات کے خاتمہ کے عنوان سے مسلسل آگے بڑھ رہی تھی اور دوسری طرف نجد کا قدیمی حکمران خاندان ’’آل سعود‘‘ اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے پیش رفت کر رہا تھا جو خلافت عثمانیہ کی پسپائی کی صورت میں پیدا ہوگیا تھا۔ اس سے قبل آل سعود کی اپنے علاقہ میں خلافت عثمانیہ اور اس کے حلیفوں مصر کے محمد علی پاشا اور نجد کے آل رشید کے ساتھ معرکہ آرائی چلتی آرہی تھی اور اب حجاز میں خلافت عثمانیہ کے باغی گورنر حسین شریف مکہ کی طرف سے اپنی خلافت کے اعلان کے بعد آل سعود نے ادھر کا رخ بھی کر لیا تھا ۔اس صورتحال میں آل سعود نے اس وقت کی عالمی طاقت برطانیہ عظمیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت سعودی عرب کے موجودہ خطے کا اقتدار سنبھالا۔ مذکورہ معاہدہ کی رو سے اس علاقے میں آل سعود کے خاندانی اقتدار کا حق تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ عظمیٰ نے اس کی حمایت و تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔
اس دوران الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کے خاندان اور سعودی خاندان میں باہمی سمجھوتہ ہوا جو آل الشیخ اور آل سعود کا معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت سعودی عرب کے نظام کو یوں تقسیم کیا گیا کہ سلطنت و انتظام کے تمام معاملات آل سعود کے پاس رہیں گے جبکہ تعلیمی و مذہبی امور اور عدالتی معاملات میں آل شیخ کی راہ نمائی اور بالاتری کو تسلیم کر لیا گیا اور قرآن و سنت کو ملک کا بنیادی قانون قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے عملی صورتحال یہ چلی آرہی ہے کہ سیاسی نظام ’’خاندانی بادشاہت‘‘ ہے جبکہ قانونی معاملات میں قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا اہتمام ہے اور اس دائرے میں آل شیخ اور آل سعود باہمی تعاون کے ساتھ ملکی نظام چلاتے آرہے ہیں۔
اس پس منظر میں سعودی عرب کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک شاہی خاندان کی باہمی کشمکش کا تعلق ہے ہمیں اس سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے اس لیے کہ بادشاہت کی تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور شاہی خاندان کے معاملات اسی طرح طے پاتے رہے ہیں۔ خود ہمارے ہاں مغل بادشاہت میں شاہجہان، اورنگزیب عالمگیر، دارا شکوہ اور اس خاندان کے دیگر افراد کی کشمکش اس پر شاہد ہے۔ البتہ سعودی عرب کے تہذیبی و ثقافتی ماحول اور دینی شناخت و امتیاز کے حوالہ سے ہم ضرور پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پریشانی کو عالمی سطح پر محسوس کیا جائے بالخصوص عالم اسلام کی سیاسی، علمی، فکری اور دینی قیادت اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر صورتحال کے غلط رخ پر جانے کے امکانات کو روکنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔ کیونکہ سعودی عرب کی معیشت و تجارت اور سیاست و حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیمی و ثقافتی دائروں میں بھی بیرونی مداخلت اور اثرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں اس وقت حرمین شریفین کی عظمت وتقدس اور اس وجہ سے پورے عالم اسلام کی سعودی عرب کے ساتھ محبت کے تناظر میں تین امور پر فوری توجہ دینا پوری امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
- حرمین شریفین کا تقدس اور سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کا تحفظ ضروری ہے۔
- آل شیخ اور آل سعود کے باہمی معاہدہ اور قانونی و تعلیمی نظام میں قرآن و سنت کی بالادستی کو بہرصورت برقرار رکھا جانا چاہیے اور سعودی نظام حکومت میں عوامی نمائندگی کی راہ ہموار کی جانی چاہیے۔
- سعودی عرب کو مسلسل بیرونی مداخلت کے بھنور سے نکالنا نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی اجتماعی ضرورت ہے۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ کم از کم ارباب فکر و دانش اور اصحاب علم و فضل اس طرف ضرو رتوجہ دیں گے۔