پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں پر ابتلا اور آزمائش کا جو دور گزر رہا ہے اس نے ہر محب وطن شہری کو الم و اضطراب سے دو چار کر رکھا ہے اور ذہنوں میں خودبخود یہ سوال ابھر رہا ہے کہ ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ اس سلوک کے بعد ایٹمی پروگرام اور صلاحیت کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ڈاکٹر عبدالقدیر سمیت ممتاز سائنسدانوں پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایٹمی پھیلاؤ جیسے ’’ناقابل معافی‘‘ جرم کا ارتکاب کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی بعض ملکوں کو منتقل کرنے میں حصہ لیا ہے۔
ایٹمی پھیلاؤ امریکہ اور اس کی ہمنوا قوتوں کے لیے آج کے دور کا سب سے بڑا جرم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جن ممالک نے اس سے قبل ایٹم بن بنا لیا تھا اور ایٹمی کلب کے ممبر بن چکے ہیں ان کے علاوہ دنیا میں کسی اور ملک کو ایٹم بم بنانے کا حق نہیں ہے اور اگر کسی ملک نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی یا کسی نے ایسے ملک سے تعاون کیا تو وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ’’ایٹمی پھیلاؤ‘‘ کا مجرم ہوگا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس کے خلاف کسی بھی کاروائی کا حق حاصل ہے جو افغانستان اور عراق پر امریکہ کے مسلح حملہ اور قبضہ کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔ بلکہ عراق پر حملے اور قبضے کے لیے تو سلامتی کونسل کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور امریکہ نے تکلف کا یہ لبادہ بھی اتار کر ایک طرف رکھ دیا، اس لیے اب یہ امریکہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ جس ملک کو چاہے ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دے دے اور جسے چاہے اس کے ساتھ تعاون کے الزام میں مجرم ٹھہرا دے ۔اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لیبیا نے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے اور بہت سے ایٹمی آلات امریکہ کے سپرد کر دیے ہیں جبکہ ایران پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے لیے بھی اس دباؤ کا زیادہ دیر تک سامنا کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
یہ واضح طور پر چند بڑے ملکوں کی دھاندلی ہے کہ وہ خود تو ایٹم بموں کے انبار لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی شہہ پر اسرائیل اور بھارت بھی ایٹم بموں کا ذخیرہ کیے ہوئے ہیں لیکن مسلم ملکوں کے لیے انہوں نے یہ مستقل پالیسی طے کر رکھی ہے کہ دنیا کا کوئی مسلم ملک ایٹمی قوت نہ بننے پائے ، اسی وجہ سے پاکستان کا ایٹم بم ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس بات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملے اور اسے اگر ختم نہ کیا جا سکے تو بین الاقوامی نگرانی کے نام سے امریکہ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔
پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں پر مذکورہ الزام، ان کی مسلسل کردارکشی اور انہیں حراست میں لینے یا گھروں میں محدود کر دینے کی حالیہ کاروائیاں بادی النظر میں اسی مہم کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ اور اس سے جہاں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں وہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں اور عالم اسلام کے پیچھے رہ جانے کی وجہ صرف مسلمانوں کی سستی اور غفلت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مغربی ملکوں کی منظم اور مربوط منصوبہ بندی کار فرما ہے جس میں مسلم ممالک کے حکمران بھی مسلسل شریک ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ملک و قوم کے عظیم محسن اور ہیرو شمار ہونے والے سائنس دانوں کے ساتھ اس قسم کا معاملہ ہوگا تو کون اپنے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم دلانے میں خوش ہوگا؟ اور جب بین الاقوامی قوانین کی آڑ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے باہمی تبادلہ کی راہیں اسی طرح مسدود رہیں گی تو دنیا کا کون سا ملک اس سمت آگے بڑھنے کا حوصلہ کر سکے گا؟ اس لیے عالم اسلام کو ایٹمی صلاحیت سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنا اور عالم اسلام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی حوصلہ شکنی بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصہ ہے جس کا مشاہدہ ہم کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک کردار مسلم دنیا کے حکمرانوں کا ہے جو مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھ کر ملت اسلامیہ کی نمائندگی اور مسلمانوں کے جذبات کی پاسداری کرنے کی بجائے مسلم ممالک میں مغرب کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں اور یہی آج دنیا بھر کے سوا ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ مسلم دنیا کے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ملت اسلامیہ کو اس مخمصہ سے نکالنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالم اسلام کی راہنمائی کریں۔