ملالہ دیوی کی وطن واپسی اور قندوز کے دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ کی خبریں ایک ہی دن قومی اخبارات میں پڑھنے کو ملیں اور ذہن میں ان دونوں خبروں کے باہمی تعلق کے حوالہ سے کئی سوالات گردش کرنے لگے۔ دیوی کے درشن میں ہمارے محترم وزیراعظم شریک تھے اور یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملالہ نے کہا ہے کہ میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتی، جبکہ مستقبل میں وزیراعظم کے عہدہ کے ایک بڑے امیدوار سیاستدان نے کہا ہے کہ وہ اسے وزیرتعلیم بنائیں گے۔
سوشل میڈیا میں مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے بہت کچھ پڑھنے میں آیا اور مجھے تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر ایک صدی قبل کا وہ منظر یاد آگیا کہ جب خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بہت سے خاندانوں کو اس علاقہ کی بندر بانٹ میں شریک کر کے ان کی خاندانی حکمرانی کو جمہوریت کے علمبرداروں نے ان کا حق قرار دے دیا تھا اور ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدات کیے تھے کہ یہ خاندان عالمی آقاؤں کے مفادات کی نگہبانی کریں گے اور اس کے بدلے میں یہ آقا ان کی خاندانی حکومتوں کو تحفظ دیتے رہیں گے تو مصر، لیبیا، عراق، یمن اور بعض دیگر علاقوں کے خاندانی حکمران فوجی اور عوامی بغاوتوں کا سامنا نہ کر سکے اور منظر سے غائب ہوگئے۔ جبکہ بعض خاندان بدستور ان معاہدات کے مطابق پوری وفاداری کے ساتھ حکمرانی کر رہے ہیں اور حق الخدمت بھی ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر شام کے حکمران خاندان کو دیکھا جا سکتا ہے کہ موجودہ صدر بشار الاسد کے دادا کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا کہ شام کی سنی مذہبیت اور علمیت کو کارنر کرنے یا کم از کم کنٹرول میں رکھنے کے لیے وہ شام کا نظم سنبھالیں گے۔ ایک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے کے باوجود اس خاندان کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا یہ عالمی حکمرانوں کی چابکدستی اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دادا کے ساتھ معاہدہ کے بعد بشار کے والد حافظ الاسد کو شام سونپ دیا گیا اور اس نے شام کو بہرحال اپنے ڈھب پر لگا لیا۔ اب اس خاندان کی تیسری پشت بشار الاسد کی صورت میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اور بالاتر قوتیں اپنے تمام تر اختلافات اور باہمی مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود بشار الاسد کے ہر حال میں تحفظ پر نہ صرف پوری طرح متفق ہیں بلکہ عملاً کر بھی رہی ہیں۔
اسی آئینے میں مشرق وسطیٰ کے دیگر خاندانی حکمرانوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے اور تاریخ کے جن طلبہ نے ان خاندانوں کے ساتھ عالمی حکمرانوں کے وہ معاہدات پڑھ رکھے ہیں وہ اس بات پر ان سب کو داد دینے پر مجبور ہیں کہ ایک صدی قبل کے ان معاہدات کے کم و بیش سبھی فریق پوری دل جمعی کے ساتھ نسل در نسل ان کے پابند ہیں اور حقِ وفاداری ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے موقع پر کسی خاندان سے تو اس قسم کا معاہدہ ممکن نہیں تھا البتہ ایک خود ساختہ مذہبی اقلیت کو اس کے لیے تیار کیا گیا اور نوزائیدہ ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دینے کے سارے جتن کیے گئے۔ جس کی ایک جھلک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اس تبصرہ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ قادیانی گروہ اس ملک میں وہ حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے تاکہ ملک کی کوئی پالیسی اور فیصلہ ان کی منشا کے خلاف طے نہ ہونے پائے۔ مگر پاکستان کا ’’مولوی‘‘ مشرق وسطی کی مذہبی قیادت سے مختلف نکلا اور یہ ٹیڑھی پسلی والا مولوی اس منصوبے میں کباب کی ہڈی بن گیا، اس نے نہ صرف بھرپور مزاحمت کی بلکہ مسلسل محنت کے ساتھ پوری قوم کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور شام کی طرح پاکستان میں ایک معمولی مذہبی اقلیت کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈور تھما دینے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔
اس پس منظر میں ملالہ دیوی کے عالمی پروٹوکول اور اسے دھیرے دھیرے آگے بڑھاتے ہوئے اس کے منہ سے ملک کا وزیر اعظم بننے اور نہ بننے کی باتیں سن کر بسا اوقات ہنسی آنے لگتی ہے کہ ’’نوبت بایں جا رسید‘‘۔ گزشتہ روز وزیراعظم اور وزیرتعلیم کے حوالہ سے مذکورہ خبریں پڑھ کر دوسری جنگ عظیم کے دوران کا ایک لطیفہ ذہن میں تازہ ہوگیا کہ برطانوی فوج کے لیے پنجاب میں جبری بھرتی کے دوران ایک میراثی خاندان کا نوجوان بھی پکڑ کر بھرتی کر لیا گیا تو اس کی ماں فریاد لے کر بھرتی آفس پہنچ گئی اور کہا کہ مجھ غریب عورت کے بیٹے کو آخر کیوں پکڑ لیا گیا ہے؟ بھرتی افسر نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا وہ اس اعزاز کو پسند نہیں کرتی کہ اس کا بیٹا برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ معظمہ کی فوج کا سپاہی بنے؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ مجھے اس پر اعتراض تو نہیں ہے مگر جب معاملہ اس نوبت تک آ پہنچا ہے تو ملکہ معظمہ کو میرا مشورہ ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اب جرمنوں سے صلح ہی کر لے۔
بہرحال اس فضا میں ملالہ دیوی پاکستان کا چار روزہ دورہ مکمل کر کے اپنے خاندان سمیت وطن واپس سدھار گئی ہے مگر اس کے جاتے ہی قوم کو قندوز کے دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ میں قرآن کریم حفظ کرنے والے سو سے زائد بچوں کی شہادت کی خبر بھی مل گئی ہے جو شاید ملالہ دیوی کو الوداعی سلامی کی کوئی صورت ہو۔ جہاں تک ان معصوم بچوں کی مظلومانہ شہادت کا تعلق ہے وہ اسی تگ و دو کا تسلسل ہے جو غیور و جسور افغان قوم پہلے ایک عرصہ تک سوویت یونین کی فوجی جارحیت اور پھر امریکی اتحاد کی لشکرکشی کا سامنا کرتے ہوئے گزشتہ تین نسلوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور اس با حمیت قوم نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ یہ مزاحمت افغانستان کی سرزمین پر بیرونی جارحیت کے مکمل خاتمہ اور اس کے آئندہ امکانات کے سدباب تک بہرحال جاری رہے گی۔ افغانستان کے ان شہداء کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا شکار ہونے والے مظلوم کشمیر شہداء کا تازہ خون بھی شامل ہوگیا ہے کہ وہ بھی بھارت کی فوجی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم قندوز اور مقبوضہ کشمیر کے شہداء کی تازہ ترین قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اس سے کشمیر اور افغانستان کی آزادی کی منزل ان شاء اللہ تعالیٰ قریب آئے گی: