روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ مارچ ۲۰۰۲ء کی ایک خبر کے مطابق نائجیریا کی وفاقی حکومت نے شرعی قوانین کو وفاقی آئین کے منافی قرار دے دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ ان میں دوسرے شہریوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو زیادہ سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ پچھلے دو برس کے دوران بارہ شمالی ریاستوں نے شرعی قوانین نافذ کیے ہیں۔
نائجیریا میں ربع صدی قبل بھی الحاج ابوبکر تفاوا بلیواؒ اور الحاج وبیلو شہیدؒ نے نفاذِ شریعت کے کام کا آغاز کیا تھا مگر انہیں اقتدار سے محروم کر کے شہید کر دیا گیا تھا اور ایک عیسائی حکومت نائجیریا پر مسلط ہو گئی تھی۔ اس کے بعد اب سے دو تین سال قبل شمالی نائجیریا کی ریاستوں نے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، صوبائی خودمختاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرعی قوانین کے نفاذ کا عمل پھر شروع کر دیا، جس کے ردعمل میں مسلم مسیحی فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، اور ان ریاستوں کی مسیحی اقلیت نے شرعی قوانین کے نفاذ کے خلاف اجتماعی مظاہروں اور فسادات کے ذریعے شرعی قوانین کے نفاذ کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ مگر ان ریاستوں کے مسلمان اپنے موقف پر قائم رہے تو اب نیا پینترا بدل کر شرعی قوانین کو وفاقی آئین کے منافی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس کے لیے دلیل یہ اختیار کی گئی ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سخت سزائیں دی جاتی ہیں جو آئین میں تمام شہریوں کو دی گئی مساوات کے خلاف ہے۔
نائجیریا سے ہٹ کر ہمارے دیگر بیشتر مسلم ممالک کا المیہ بھی یہی ہے کہ ان ممالک کے حکمرانوں نے ازخود جو آئین اور دستور طے کر رکھے ہیں انہیں حرفِ آخر قرار دے کر شرعی قوانین کو ان کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور ان خودساختہ دساتیر کو اصل معیار قرار دے کر قرآن و سنت کے احکام کا راستہ روکا جاتا ہے۔
پاکستان میں جن دنوں قومی اسمبلی میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے اور قانون ساز اداروں کو قرآن و سنت کا پابند بنانے کے لیے ’’شریعت بل‘‘ پر بحث ہو رہی تھی، اس کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی تھی کہ اس سے پارلیمنٹ کی خودمختاری مجروح ہو گی۔ اور اب بھی مختلف حلقوں کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کے جو مطالبات ہو رہے ہیں ان کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ ان اداروں کی وجہ سے پارلیمنٹ کی مطلق العنانیت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اس کے اختیارات محدود ہو گئے ہیں۔
مغرب نے گزشتہ دو صدیوں میں یہی سبق ہمیں اہتمام سے پڑھایا ہے جس پر اکثر مسلم ممالک کے حکمران سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ اور ان کا یہی طرزِ عمل عالمِ اسلام میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ ایک صحیح اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور مسلم امہ کے قیام کے لیے قرآن و سنت کی بالادستی اور شرعی قوانین کا نفاذ اولین شرط ہے، اور اس کے بغیر مسلم امہ موجودہ بحران سے نجات حاصل نہیں کر سکتی۔