مکہ مکرمہ میں ہماری قیام گاہ کُدی روڈ کا ایک بڑا ہوٹل ’’دار بن محفوظ‘‘ تھا جو مدینہ منورہ روانگی تک ہمارا مستقر رہا۔ یہ فائیو سٹار ہوٹل ہے اور قیام و طعام کی اعلیٰ سہولتوں کا حامل ہے، مگر مسجد حرام سے خاصے فاصلے پر ہے۔ ہوٹل کی طرف سے حرم تک جانے کا انتظام موجود تھا اور ہوٹل کی گاڑیاں مسلسل یہ خدمت سر انجام دیتی رہیں، مگر اپنے طور پر آنے جانے کی عام سہولت میسر نہیں تھی۔ میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ مکرمہ آتے جاتے کدی کا راستہ اختیار فرمایا تھا۔ اس روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کداء کے راستے سے داخل ہوئے تھے اور کدی کے راستے سے واپس گئے تھے۔ جبکہ حافظ ابن الاثیرؒ نے ’’النہایۃ‘‘ میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ عمرہ کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کدی کے راستے سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس پر اصحاب ذوق نے اطمینان کا اظہار کیا کہ چلو ہمیں بھی اسی راستے پر قیام کرنے اور وہاں سے حرم شریف آنے جانے کی سعادت حاصل ہوگئی ہے۔
منیٰ میں ہمارے خیمے مسجد خیف کے ساتھ اور جمرات کے قریب تھے، یہاں بھی قیام و طعام کی اچھی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ جس روز منیٰ کا سانحہ پیش آیا ہم صبح صبح رمی سے فارغ ہو کر خیموں میں آچکے تھے۔ رات سفر میں گزری تھی اور رمی جمرات بھی مشقت کا مرحلہ تھا اس لیے میں واپس پہنچ کر خیمہ میں سو گیا۔ دو تین گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی تو ساتھیوں نے سانحہ کے بارے میں بتایا، سینکڑوں کی تعداد میں شہادتوں کی خبروں نے پریشان کر دیا۔ ہمارے قافلے والے تو اکثر اپنے خیموں میں تھے مگر کچھ اور دوست بھی حج پر آئے ہوئے تھے اور عام خیموں میں تھے۔ میرے چھوٹے بھائی مولانا قاری حماد الزہراوی، جامعہ نصرۃ العلوم کے استاذ قاری عبید اللہ عامر، جمعیۃ علماء اسلام (س) ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، الشریعہ اکادمی کے مولانا حافظ محمد عبد اللہ راتھر، اور مدرسہ ابو ایوب انصاریؓ کے مولانا حافظ محمد یوسف ہمارے قریبی رفقاء میں سے ہیں، یہ سب منیٰ میں تھے۔ ان کی فکر لاحق ہوئی اس لیے شام تک حادثہ کی تازہ خبریں اور ساتھیوں کی خیریت معلوم کرتے رہے۔ سینکڑوں شہادتوں پر بے حد صدمہ ہوا جبکہ اپنے سب ساتھیوں کی خیریت کی خبر اطمینان کا باعث بنی۔
سوشل میڈیا پر حسب معمول طرح طرح کے تبصرے سامنے آنے لگے۔ جبکہ اصل صورت حال یہ تھی کہ رمی کے لیے جمرات تک آنے جانے کا راستہ یکطرفہ تھا اور اس بات کا بخوبی انتظام کر لیا گیا تھا کہ جانے والے راستے سے واپسی نہ ہو۔ کئی منزلہ عمارت میں دو طرفہ راستے اس بات کی تسلی کے لیے کافی تھے کہ رمی کے بعد حجاج کی واپسی کسی رش اور بھگدڑ کا باعث نہ بن سکے۔ مجھے کافی عرصہ کے بعد حج کے سفر کا موقع ملا تھا اور پہلے کی بہ نسبت انتظامات اور نظم و نسق میں بہت بہتری دکھائی دے رہی تھی۔ ویسے بھی سعودی حکومت حرمین شریفین کی توسیع، مشاعر مقدسہ پر زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی، اور حجاج کی خدمت کے معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے جس کا اعتراف ہر منصف مزاج شخص کی زبان پر رہتا ہے۔ اس روز حادثہ سے دو تین گھنٹے قبل ہم جمرات کی طرف جاتے ہوئے اور واپسی پر آپس میں یہی تبصرہ کر رہے تھے کہ اگر بدنظمی خود پیدا نہ کی جائے تو بڑے سے بڑے رش کی صورت میں بھی آسانی کے ساتھ رمی کی جا سکتی ہے۔
مگر تقدیر کے فیصلے کون ٹال سکتا ہے؟ سو کے لگ بھگ افراد کے ایک گروہ نے آنے والے راستے سے مخالف سمت کی طرف واپس جانے کی کوشش میں رکاوٹیں عبور کیں تو المناک سانحہ رونما ہوگیا اور آٹھ سو سے زیادہ افراد اس کی نذر ہوگئے۔ یہ مخالف سمت واپسی جلد بازی اور بے وقوفی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی پلاننگ کے امکانات کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی تحقیقات جاری ہیں اور نتائج سامنے آنے پر صورت حال واضح ہو جائے گی۔ البتہ افسوس اس بات پر ہوا کہ سوشل میڈیا کا تو کام ہی بات کا بتنگڑ بنانا ہوتا ہے مگر حکومتوں کی سطح پر یہ بے وقت کی راگنی شروع ہوگئی کہ حرمین شریفین کے نظم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ یہ بہت پرانا ایجنڈا ہے جس پر ربع صدی قبل خاصی لے دے ہو چکی ہے۔ ہم نے اس موقع پر یہ عرض کیا تھا اور اب بھی ہمارا موقف یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی تجویز حرمین شریفین کے ماحول کو خلفشار کا شکار کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے گی۔ سعودی حکومت جس دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ حاجیوں کی خدمت کر رہی ہے، حرمین شریفین کی توسیع و ترقی میں مسلسل مصروف عمل ہے، اور امن و سکون کا ماحول برقرار رکھے ہوئے ہے اس کا انکار یا اسے ڈسٹرب کرنے کی کوشش ناشکری کے ساتھ ساتھ امن و سکون کے ماحول کو خراب کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ یہ بے وقت کی راگنی دو چار دن سے زیادہ نہیں چل سکی اور ایسا کرنے والوں نے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا احساس دلا دیا ہے جس کی بہرحال قدر کرنی چاہیے۔
مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور منیٰ میں ہمارے کاروان کے منتظم ڈاکٹر محمد الیاس نے مختلف مقامات پر حمد و نعت کی محافل کا اہتمام کیا جس میں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا عبد العلیم یزدانی، اور مولانا ارشد یوسف خان نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمد اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نعت کے نذرانے پیش کر کے جذب و کیف کا عجیب سماں باندھ دیا۔ ان محفلوں کے سامعین میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا فضل محمد یوسف زئی، مولانا محمد طیب پنج پیر، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا زاہد قاسمی، اور مولانا حافظ بدر منیر جیسے اصحاب ذوق شامل تھے، جبکہ مجھے ان بزرگوں کو ایک محفل میں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی۔
مدینہ منورہ میں میرے لیے سعادت اور خوشی کی ایک اور بات اپنے حفظ قرآن کریم کے استاذ محترم حضرت قاری محمد انور، اور مسجد نبوی میں نصف صدی سے تجوید و قراءت کی خدمت کرنے والے بزرگ حضرت قاری محمد بشیر کی خدمت میں حاضری بھی تھی۔ دونوں بزرگوں نے دعاؤں اور شفقتوں سے نوازا اور میری بیٹری کی چارجنگ بڑھ گئی۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔