ملک بھر میں انتخابات کی گہماگہمی ہے اور بہت سی پارٹیاں ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی میں مصروف ہیں، ان سطور کی اشاعت تک انتخابی مہم عروج پر ہو گی اور سیاسی پارٹیاں اور ان کے امیدوار قسمت آزمائی کی جدوجہد میں مگن ہوں گے۔ بہت سی مذہبی جماعتیں بھی حسبِ معمول انتخابی میدان میں ہیں اور ان کے سینکڑوں امیدوار ملک کے مختلف حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انتخابات سے قبل بہت سی اہم دینی شخصیات کی کوشش رہی ہے کہ مذہبی جماعتیں بلکہ مذہبی مکاتبِ فکر باہمی اتحاد و مشاورت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر الیکشن لڑیں لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ وفاق المدارس کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم اور جامعہ دار العلوم کراچی کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم سمیت مختلف اہم اور سرکردہ شخصیات نے اس کے لیے کوشش کی، پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور راقم الحروف نے بھی احباب سے رابطے کیے مگر کوئی مثبت پیشرفت نہ ہو سکی۔
جامعہ نصرۃ العلوم میں ضلعی سطح پر مختلف دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا اجلاس راقم الحروف کی دعوت پر ہوا، جس میں دو باتیں میں نے عرض کیں کہ:
- دینی راہنما صرف اس حلقہ میں الیکشن لڑیں جہاں کم از کم وہ مقابلہ کی پوزیشن میں نظر آئیں۔
- اور اس بات کا اہتمام کریں کہ مذہبی جماعتوں خاص طور پر دیوبندی مسلک کے امید وار کسی حلقہ میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا نہ ہوں۔
اس کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں بھی اس نوعیت کا ایک بھرپور اجتماع ہوا مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا اور بہت سے حلقوں میں صورتحال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دینی جماعتیں انتخابات کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی ضرورت خیال نہیں کرتیں اور نہ ہی اس کے لیے اس سطح کی تیاری کرتی ہیں جو الیکشن کے لیے بہرحال ضروری سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بے مثال قربانیوں کے بعد یہ دیکھ کر کیا تھا کہ جب تک اسمبلی میں نمائندگی موجود نہ ہو عوامی تحریک مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔
- چنانچہ ۱۹۵۶ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی تشکیل نو کے ساتھ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی سربراہی میں انتخابی سیاست میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا گیا، مقصد یہ تھا کہ ہم نفاذِ اسلام یا عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے عوامی محاذ پر جو جدوجہد کرتے ہیں اس کے لیے اسمبلیوں میں بھی ہماری نمائندگی موجود ہو تاکہ ایوان کے اندر اور باہر کی دونوں قوتیں مل کر اپنے مقصد کی طرف پیشرفت کر سکیں۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیت کے بارے میں دستوری فیصلے کے مرحلہ میں ہم نے اس کا کامیاب تجربہ کیا اور اسمبلیوں کے اندر موجود ہمارے مضبوط نمائندوں نے باہر کی بھرپور عوامی تحریک کی پشت پناہی کے ساتھ دونوں مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ تجربہ نے یہ بات ثابت کر دی کہ عوامی تحریک اور پارلیمانی نمائندگی کے دو ہتھیار ہاتھ میں ہوں تو ہم ملک میں دینی مقاصد کے لیے مؤثر پیشرفت کر سکتے ہیں۔
- اس کے بعد ہم نے ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰی ؐ اور ابھی چند سال قبل متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ایک اور تجربہ کیا کہ اگر عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ انتخابی میدان میں بھی مختلف دینی مکاتبِ فکر کی جماعتیں متحدہ فورم قائم کر کے باہمی اشتراک و تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں تو پارلیمانی قوت میں نتیجہ خیز اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان تجربات و مشاہدات کا تقاضہ تھا کہ ہم ان سے فائدہ اٹھاتے اور ان کے دائرے کو اور زیادہ مضبوط بناتے لیکن ہماری اجتماعی غفلت کی وجہ سے یہ صورتحال سامنے آرہی ہے کہ سیکولر قوتیں دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں اور ہمارے ہاتھ سے نہ صرف یہ کہ پارلیمانی قوت مٹھی کی ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے بلکہ عوامی تحریک اور اسٹریٹ پاور کی قوت سے بھی ہم بتدریج محروم ہو رہے ہیں۔
ایک بات اور بھی اس حوالہ سے قابل توجہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ امیدواروں کا اپنے حلقہ کے عوام یا کم از کم اپنے کارکنوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رہے، ان کے جائز کاموں میں حتی الوسع تعاون کے ساتھ ساتھ ان کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شرکت کا سلسلہ موجود ہو، ہمارے ہاں بالخصوص پنجاب میں الیکشن کے لیے یہ باتیں ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ دینی جماعتوں کے امیدوار اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ آتا ہے، اس کے بعد سے ہماری انتخابی مہم کا آغاز ہوتا ہے جو نتیجہ خیز نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات جگ ہنسائی کا باعث بن جاتی ہے۔
اس لیے ہم ان انتخابات میں جہاں اس بات کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے دینی جماعتوں بالخصوص جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور متحدہ دینی محاذ کو سرخروئی نصیب فرمائیں کہ انہیں اسمبلیوں میں مؤثر نمائندگی حاصل ہو، وہاں ہم دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے یہ گزارش کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ انتخابات کے حوالہ سے سنجیدہ طرزعمل اختیار کریں اور انتخابات میں وقتی طور پر محدود سطح پر شریک ہونے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس کے لیے وہ تمام ضروری ذرائع اختیار کرنے کی کوشش کریں جو اس کام کا ناگزیر تقاضہ متصور ہوتے ہیں مثلاً:
- اگلے انتخابات کے لیے ابھی سے حلقے متعین کر کے اپنے امید واروں کو اس کے لیے کام کی ہدایت کریں۔
- ابھی سے اس بات کا اہتمام کریں کہ دینی جماعتیں اور خاص طور پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعتیں باہمی اشتراک و تعاون کے ساتھ اس کام میں شریک ہوں اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے لیے معاون اور شریک کار بننے کی کوشش کریں۔
- اس کے ساتھ بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کی آواز کو مضبوط کرنے کے لیے عوامی تحریکی قوت اور اسٹریٹ پاور کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوئی صورت نکالیں اور اس حقیقت کا ادارک تازہ کریں کہ ہماری اصل قوت تحریکی قوت اور اسٹریٹ پاور ہے۔ اگر ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کی طرح اسمبلیوں میں موجود ہمارے نمائندوں کو بھرپور عوامی تحریک کی پشت پناہی میسر ہو گی تو ان کی آواز اسمبلیوں میں مؤثر ہو گی ورنہ اسمبلیوں میں ان کے ووٹ بھی اکثریت و اقلیت کے پیمانے سے ہی ناپے جائیں گے۔
- ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسمبلیوں کی رکنیت اور حکومتوں میں شمولیت ہمارے مقاصد نہیں بلکہ حصول مقصد کے ذرائع ہیں۔ اگر یہ ذریعہ کے طور پر ہمارے لیے کارآمد ہیں اور ہم انہیں اپنے ملی و دینی مقاصد کے لیے کارآمد بنانے میں سنجیدہ رہیں تو ان میں حصہ لینے کا فائدہ ہے، ورنہ وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا جس کی دینی جماعتوں سے بہرحال توقع نہیں ہونی چاہیے۔