۲ اگست کو صبح مجھے لاہور سے نیویارک کے لیے روانہ ہونا تھا، چھ بج کر پچاس منٹ پر پی آئی اے کی فلائٹ تھی اس لیے یکم اگست کو جمعہ پڑھا کر شام ہی لاہور حاضری کا پروگرام بنا لیا۔ والد محترم مدظلہ کی خدمت میں ایک روز قبل حاضر ہو آیا تھا، مجھ سے اکثر ملکی حالات کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ حالات روز بروز مزید بگڑ رہے ہیں اور بظاہر صورتحال میں اصلاح کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی، یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے۔ میں نے سفر کے بارے میں بتایا، واپسی کا پوچھا تو عرض کیا کہ حسب معمول رمضان المبارک کے دوسرے جمعۃ المبارک تک ان شاء اللہ واپسی ہو جائے گی، بھیگی آنکھوں کے ساتھ دعا فرمائی اور میں مصافحہ کر کے رخصت ہوگیا۔ جمعہ کے روز مغرب تک مسجد امن باغبانپورہ لاہور پہنچا، یہاں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے علماء کرام کے ایک اجتماع اور پھر عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس موقع پر علماء کرام سے موجودہ صورتحال کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ موجودہ صورتحال دو حوالوں سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور مزید ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک اس حوالہ سے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور مغرب کی کشمکش بڑھتی جا رہی ہے اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کشمکش سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، عسکری بھی ہے، سائنسی بھی ہے اور تہذیبی و فکری بھی ہے۔ اول الذکر چاروں شعبوں میں عالم اسلام مغرب کے سامنے مغلوبیت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، صرف عقیدہ و فکر اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر جنگ جاری ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اور دینی حلقے اعتقادی، فکری اور ثقافتی طور پر مغرب کے سامنے سپرانداز ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مغرب عالم اسلام میں اپنے وفادار حلقوں کے ذریعے انہیں مغلوب اور بے بس کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ اس کشمکش کا تناظر دن بدن واضح تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کی شدت اور سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے واقف ہوں اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی مسلسل نظر ہو تاکہ وہ قوم کی صحیح طور پر راہنمائی کر سکیں۔
اس حوالہ سے مجھے اس طرز عمل سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ سرے سے حالات سے ہی بے خبر رہا جائے۔ میں نے کئی مدارس میں دیکھا ہے کہ ان کے ہاں اخبارات کا داخلہ ہی بند ہے کہ نہ صورتحال سے واقف ہوں گے اور نہ حالات کی سنگینی پر جلنے کڑھنے کا موقع آئے گا۔ یہ فرار کا راستہ ہے اور طوفان کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر مطمئن ہوجانے والی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ اب میں محفوظ ہوگیا ہوں۔ میرے نزدیک حالات سے بے خبر رہنے کا طرزعمل بھی اسی نوعیت کا ہے، اس سے حالات کی رفتار میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے غافل رہیں گے۔
حالات کی خرابی کا دوسرا دائرہ علاقائی ہے، اس لیے کہ مغربی استعمار اس بات سے مایوس ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے عوام بالخصوص دینی حلقوں کو وہ اپنے ڈھب پر لا سکے۔ اس لیے سرے سے پاکستان کو ہی دنیا کے نقشے سے ختم کر دینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ عالمی پریس میں یہ باتیں لکھی جا رہی ہیں کہ روسی استعمار کے خلاف پاکستان کی ضرورت تھی جو پوری ہوگئی ہے اس لیے اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملک مغربی استعمار کے تہذیبی اور ثقافتی غلبہ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی قوت کو ختم کرنے کے لیے جنوبی ایشیا کے جغرافیائی نقشے میں تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے۔ اس قسم کی باتیں لکھ کر اور بار بار دہرا کر اس خطہ کے عوام کا ذہن بنایا جا رہا ہے کہ وہ جغرافیائی تبدیلیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ خود ہمارے دینی حلقوں میں دھیرے دھیرے یہ بات آگے بڑھائی جا رہی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے نام سے یہ ملک مغرب کے مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بنایا جا رہا ہے اس لیے اس کی سالمیت و وحدت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے ہمارے بزرگوں کے موقف کی تائید ہی ہوگی۔ یہ بہت خطرناک بات ہے اور بہت بڑا نفسیاتی حربہ ہے جو پاکستان کی جغرافیائی وحدت کے خلاف عالمی استعمار کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اور اس سے پوری طرح خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
میں اس سلسلہ میں اکثر اوقات اس تاریخی واقعہ کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ۱۹۷۱ء میں جب وطن عزیز دولخت ہوا اور بنگلہ دیش قائم ہوا تو اس سے قبل ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ اور پنجاب و سندھ سے اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت صدر جنرل یحیٰی خان سے دستور سازی کے لیے مذاکرات کر رہی تھی۔ جنرل محمد یحیٰی خان، شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے یہ مذاکرات وطن عزیز کے مستقبل اور ملکی سالمیت و وحدت کے تحفظ کے لیے خطرے کے الارم کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ اس دوران پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان سے دستور ساز اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے والی بعض جماعتوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی دعوت پر لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما قاضی محمد سلیم ایڈووکیٹ کے گھر میں جمع ہو کر اقلیتی پارلیمانی گروپوں کی طرف سے ان مذاکرات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ایک وفد ڈھاکہ گیا جس میں خان عبد الولی خان اور مولانا مفتی محمود شامل تھے۔ مولانا مفتی محمود نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شورٰی کے اجلاس میں مذاکرات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایک اہم بات یہ بتائی کہ جب ان کی شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات ہوئی تو ان دونوں بزرگوں میں سے ایک نے (غالباً خان عبد الولی خان نے) شیخ مجیب الرحمان سے کہا کہ:
’’شیخ صاحب! آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگریسی ہیں، کل جب آپ پاکستان بنا رہے تھے ہم نے آپ سے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو نقصان ہوگا، اور آج جب آپ اسے توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اب اس پاکستان کو نہ توڑیے اس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو نقصان ہوگا‘‘۔
میرے خیال میں اب اس نئے مرحلہ میں جبکہ پاکستان کے خدانخواستہ مزید حصے بخرے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، ہمارا موقف یہی ہونا چاہیے اور یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ماضی کی طرف جائے اور اس کا حوالہ دیے بغیر ملک کے تحفظ کی جدوجہد کریں، اس لیے کہ اب پاکستان کی بقا اور تحفظ میں ہی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مفاد ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پورے عالم اسلام کا مفاد پاکستان کی بقا اور تحفظ میں ہے۔ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطٰی اور مشرق بعید کے مسلمانوں کے درمیان اہم ترین جغرافیائی سنگم میں واقع یہ تہذیبی اور فکری رکاوٹ اگر خدانخواستہ پامال ہوگئی تو دنیا کے کسی خطے میں بھی مسلمان محفوظ نہیں رہیں گے اور مغربی استعمار یاجوج ماجوج بن کر عالم اسلام کے کونے کونے میں پھیل جائے گا۔
ان دو حوالوں سے صورتحال کا ہلکا سا نقشہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ علماء کرام جہاں کہیں بھی ہوں انہیں میری تین گزارشات پر ضرور توجہ دینی چاہیے:
- ایک یہ کہ حالات سے لاتعلق نہ رہیں اور صورتحال سے سرے سے واقف نہ ہونے کے طرزعمل پر نظر ثانی کریں۔ اس سے قبل میں یہ عرض کیا کرتا تھا کہ صورتحال سے بے خبر رہنا اور حالات سے لاتعلق ہو جانا دینی حمیت کے منافی ہے لیکن آج اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ دین کے ساتھ وابستگی کے بھی منافی ہے۔ اگر ہم ان حالات میں بھی بے خبر اور لاتعلق رہنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں تو ہمیں صرف دینی حمیت و غیرت کا ہی نہیں بلکہ دین کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھی ازسرنو جائزہ لے لینا چاہیے۔ اس لیے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے میری گزارش ہے کہ وہ حالات کا ادراک کریں، صورتحال سے باخبر رہیں اور پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ ان حالات میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کے راستے تلاش کریں۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ جس شعبہ اور دائرہ کار میں آپ اپنے ذوق کو ہم آہنگ پاتے ہیں اور جس کام کی آپ اپنے اندر صلاحیت پاتے ہیں اسی میں کام کریں لیکن ضرور کریں، فارغ ہرگز نہ بیٹھیں اور لاتعلقی اور بے خبری کے طرز عمل سے بہرصورت حاصل کریں۔
- تیسری گزارش علماء کرام اور دینی کارکنوں سے یہ ہے کہ دین کے جس شعبہ میں آپ کام کر رہے ہیں وہیں کریں اور دلجمعی کے ساتھ کریں لیکن خدا کے لیے دین کے دوسرے کسی شعبے کی نفی نہ کریں اور کسی دوسرے دینی شعبہ میں کام کرنے والوں کے لیے تحقیر اور استخفاف کا لہجہ اختیار نہ کریں۔ اگر دین کے کسی دوسرے شعبہ میں کام کرنے والوں کے ساتھ آپ کسی درجہ میں تعاون کر سکتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم حوصلہ شکنی کسی کی مت کریں۔
میں ایک کارکن ہوں اور ملک بھر کے کارکنوں کے جذبات و احساسات سے پوری طرح آگاہ ہوں، مجھے معلوم ہے کہ کارکنوں کی غالب اکثریت قومی سطح پر دینی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے مرکزی قیادتوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور ادھر سے حوصلہ افزا جواب نہ پا کر مایوسی کا شکار ہو رہی ہے۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مایوسی کا شکار ہو کر گھروں میں بیٹھ جانے کی بجائے اپنا کام کرتے جائیں اور قائدین کو مناسب طریقہ سے توجہ دلاتے جائیں، کبھی تو کسی کا دل پسیجے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دینی جماعتوں کی موجودہ قیادت نے حالات کی سنگینی اور دینی کارکنوں کے جذبات کا بروقت احساس نہ کیا تو یہ خلا بہرحال باقی نہیں رہے گا، اس لیے کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا، فضا میں اگر ہوا کا دباؤ کم ہو جائے تو اس خلا کو اکثر اوقات آندھیاں پر کرتی ہیں جس سے بہت کچھ بدل جایا کرتا ہے۔
مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں علماء کرام کی خدمت میں یہ گزارشات پیش کرنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کیا اور صبح تین بجے اپنے رفیق سفر قاری خالد رشید صاحب آف فیصل آباد کے ہمراہ لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا جہاں سے ہمیں نیویارک کے لیے سفر کرنا تھا۔