دینی تعلیم کے نظام و نصاب میں تبدیلی کی بحث

   
۱۳ دسمبر ۲۰۱۲ء

دینی تعلیم کے نظام و نصاب کے بارے میں راقم الحروف کی گزارشات پر محترم مولانا محمد اسماعیل ریحان کا تبصرہ نظر سے گزرا۔ اس سے قبل ادارہ علوم اسلامیہ، بھارہ کہو اسلام آباد کے پرنسپل مولانا فیض الرحمٰن عثمانی بھی فون پر اس سلسلہ میں اپنے تحفظات سے آگاہ فرما چکے ہیں۔ مجھے ان دونوں بزرگوں کے تحفظات سے اتفاق ہے، بلکہ اگر اس موضوع پر عمومی بحث و مباحثہ کی کوئی صورت پیدا ہو تو میرے تحفظات کی فہرست شاید ان دونوں بزرگوں سے زیادہ طویل ہو۔ لیکن میں سرِدست اس ضرورت پر زور دے رہا ہوں کہ ضروریاتِ زمانہ کو نظر انداز کر دینا مناسب نہیں ہے، بلکہ عصری ضروریات اور جدید علمی و فکری چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ان کا شرعی اصولوں کی روشنی میں حل پیش کرنا ہماری اصل ذمہ داری ہے۔

مولانا محمد اسماعیل ریحان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس مفید اور فکر انگیز تبصرہ کے ذریعہ مجھے جامعہ شاہ ولی اللہ گوجرانوالہ کے حوالہ سے ایک اور معاملہ واضح کرنے کا موقع دیا، ورنہ شاید یہ بات لمبے عرصے تک طاقِ نسیاں میں بند رہتی۔ وہ یہ کہ ہم نے جب گوجرانوالہ میں جدید اور قدیم علوم کے امتزاج کے ٹائٹل کے ساتھ ایک نئے تعلیمی ادارے کے قیام کا پروگرام بنایا تو اس کا ابتدائی نام ”نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی“ تھا اور اس منصوبے کا پہلا تعارف پمفلٹ اور اشتہارات کی صورت میں اسی نام سے شائع ہوا تھا۔ اس سے عمِ مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کیا۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم تھے اور ہمارے اس نئے تعلیمی پروگرام کے سرپرست تھے، انہوں نے فرمایا کہ اس نئے تعلیمی نظام کے لیے الگ نام سے ادارہ بناؤ۔ یہ بہت ضروری کام ہے، لیکن اس کے لیے جو تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ دینی مدارس میں چلا آ رہا ہے، اسے ڈسٹرب نہ کرو۔ ان کے اس اختلاف کی وجہ سے ہم نے اس کا نام تبدیل کر کے ”فاروق اعظمؓ اسلامی یونیورسٹی“ رکھا اور پروگرام کا دوسرا تعارف اس نام سے شائع ہوا۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے اس سے بھی اختلاف کیا اور فرمایا کہ بھائی! جس کے مشن پر کام کرنا چاہتے ہو اس کا نام تمہیں کیوں یاد نہیں آ رہا؟ ان کا اشارہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی طرف تھا، جن کے علوم کے وہ اپنے دور کے متخصصین میں شمار ہوتے تھے اور حضرت شاہ صاحبؒ کی تعلیمات پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ ہم نے اپنے اس نئے تعلیمی پروگرام کو ”شاہ ولی اللہ یونیورسٹی“ کا نام دے دیا اور اس کے بعد کی پیشرفت گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔

حضرت صوفی صاحبؒ کا موقف یہ تھا اور خود میرا ذاتی موقف بھی یہ ہے کہ دینی مدارس کا جو روایتی تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے، اسے چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ عصری تقاضوں کے حوالے سے ایک نئے تعلیمی تجربے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے، جو بحمد اللہ تعالیٰ بہت سے اداروں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک جس طرح عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں پورا کرنے کی محنت کرنا ضروری ہے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعلیمی نظام کے روایتی تسلسل کو قائم رکھنا اور اس کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم کا ذمہ دار فرد ہونے کے باوجود ایسے علمی و فکری مباحث کے لیے میں نے ”الشریعہ اکادمی“ اور ماہنامہ ”الشریعہ“ کے نام سے الگ فورم قائم کر رکھا ہے، جن مباحث میں زیادہ سے زیادہ اور مختلف الخیال اصحابِ فکر کا شریک ہونا مجھے ضروری محسوس ہوتا ہے۔

مجھے مولانا محمد اسماعیل ریحان کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ:

”ہمیں دورِ صحابہؓ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے اصل دین کو برقرار رکھتے ہوئے زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے کیا انداز اختیار کیا اور اس سلسلہ میں توازن و اعتدال کے لیے کن بنیادی چیزوں کا لحاظ رکھا۔“

البتہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے تتبع میں اس دائرہ کو وسعت دیتے ہوئے ”القرون المشہود لہا بالخیر“ یعنی خیر القرون کو بھی اس میں شامل سمجھتا ہوں اور میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ عصری تقاضوں اور جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں ”خیر القرون“ کو بنیاد بنانا چاہیے اور خیر و برکت کے اس دور میں اگر راہ نمائی کا کوئی پہلو مل جائے تو اس کو ترجیح دینی چاہیے۔

اس کے ساتھ ایک اور طالب علمانہ رائے بھی احباب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں احناف میں بہت سے مسائل میں متاخرین نے متقدمین کے اقوال و آراء سے اختلاف کرتے ہوئے الگ موقف اختیار کیا ہے، جو ظاہر ہے کہ اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے تناظر میں تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ متقدمین سے الگ موقف اختیار کرنے والے فقہاء کرام کے دور کے حالات کا تسلسل کا اب تک قائم رکھنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ضروریات میں تغیر و تنوع کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے اگر کسی مسئلہ میں آج کے حالات و ضروریات متاخرین کی بجائے متقدمین کے موقف کی طرف واپس جانے کا تقاضہ کر رہے ہوں تو ہمیں اس میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے مسئلہ بنا لینا چاہیے۔

حنفیت علمی بحث و مباحثہ کے نتیجے میں تشکیل پانے والی فقہ کا نام ہے اور اختلافِ رائے اس کا سب سے بڑا حسن ہے۔ بعد کے ادوار میں اس فقہ پر نظر ثانی یا اس کی تدوینِ نو کی ضرورت پیش آنے پر بھی اجتماعی علمی بحث و مباحثہ کی طرز ہی اختیار کی گئی تھی، جیسا کہ ”فتاویٰ عالمگیری“ اور ”مجلۃ الاحکام العدلیۃ“ کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ہمیں علمی بحث و مباحثہ کی ضرورت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔

جہاں تک دینی و عصری تعلیم کے امتزاج سے تربیتی حوالہ سے ”خنثیٰ مشکل“ قسم کی مخلوق سامنے آنے کا تعلق ہے، مولانا محمد اسماعیل ریحان کا یہ خدشہ بجا ہے۔ لیکن اس کا تعلق ہمارے تربیتی نظام سے ہے، جو نہ صرف یہ کہ کمزور ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تربیتی نظام کو صحیح کرنا ہو گا اور سب سے زیادہ اساتذہ کی باقاعدہ ٹریننگ اور ذہن سازی کا اہتمام کرنا ہو گا، جس کی طرف ہماری توجہ ایک محدود سطح سے آگے نہیں بڑھ رہی۔

عصری تقاضوں کے حوالہ سے کام کرنے والے جن تعلیمی اداروں کا مولانا محمد اسماعیل ریحان نے تذکرہ فرمایا ہے، ان پر میری نظر بھی ہے اور بہت سے اداروں کے ساتھ میرے رابطے بھی ہیں۔ میرے خیال میں اس طرز پر کام کرنے والے اداروں کی باہمی مشاورت اور رابطہ و مفاہمت کی کوئی عملی صورت بن جائے تو اس کام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

کراچی ہمارے ملک کا معاشی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے ملک گیر نظام کا دارالحکومت بھی ہے، اس لیے اس کارِخیر کے آغاز کے لیے فطری طور پر کراچی ہی کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی ہیں، لیکن کیا کراچی کو خود بھی اس کا احساس ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter