۲۸ اپریل ۲۰۰۷ء کو لاہور میں ممتاز اہل علم و دانش کی ایک مجلس میں حاضری کا موقع ملا۔ اس کا اہتمام جوہر ٹاؤن میں واقع پنجاب قرآن بورڈ کے دفتر میں جامعہ خیر المدارس ملتان کے مہتمم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کیا تھا اور ایجنڈا یہ تھا کہ جامعہ خیر المدارس ملتان نے لاہور میں جوہر ٹاؤن کے قریب اپنی ایک شاخ قائم کی ہے جس کے لیے تعمیر کا ایک مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور اس کے لیے تعلیمی پروگرام طے کرنے کی غرض سے قاری صاحب محترم نے ملک کے ممتاز ارباب علم و دانش کو اس مشاورتی نشست میں جمع کیا تھا۔ شرکاء محفل میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد تقی عثمانی، جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان، ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا اسعد تھانوی، مولانا مشرف علی تھانوی، ڈاکٹر سعد صدیقی اور دیگر حضرات کے علاوہ ایران کے بزرگ عالم دین اور دارالعلوم زاہدان کے سربراہ مولانا محمد قاسم بھی تھے جو جامعہ اشرفیہ لاہور کے ساٹھ سالہ اجتماع میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مجھے بھی یاد کر لیا کرتے ہیں جس سے میرے لیے بہت سے حضرات سے بیک وقت استفادہ آسان ہو جاتا ہے۔
قاری صاحب موصوف کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق جامعہ خیر المدارس ملتان کی لاہور شاخ کے حوالہ سے ان کے اہداف کچھ اس طرح کے ہیں کہ:
- بچوں اور بچیوں کے لیے جدید معیار کے ایک ایسے اسکول کا قیام جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور تربیتی ماحول فراہم کیا جائے۔
- دینی مدارس کے فضلاء کے لیے ایسے کورسز کا اہتمام جن میں انہیں انگلش زبان، دیگر مذاہب اور تحریکات کے تعارف، قانون و سیاست اور اسلام کو درپیش جدید چیلنجز کے حوالے سے ضروری تیاری کرائی جائے۔
- تاجر حضرات، ملازمین اور اس طرح کے دیگر طبقات کے لیے فہم دین کے شارٹ کورسز جن کے ذریعے سے وہ ضروریات دین سے واقف ہوں اور ایک اچھے مسلمان کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔
- نو مسلم حضرات جو اپنے مذہب کے دائرے سے نکل کر مسلمان ہو جاتے ہیں اور اپنے ماحول سے کٹ جاتے ہیں، ان کی کفالت، دینی تعلیم اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رفاہی تعلیمی ادارے کا قیام۔
- سلوک و احسان اور دین کی عملی و اخلاقی تربیت کے لیے خانقاہی نظام کی روشنی میں مناسب تربیتی ماحول کے قیام کی کوشش۔
- اسکولوں اور کالجوں میں تعطیلات کے دوران میں ان کے طلبہ اور طالبات کے لیے قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم کے شارٹ کورسز کا اہتمام۔
- نئے مسائل کی تحقیق اور شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ان کے حل کے لیے ایک ریسرچ سنٹر کا قیام جس میں جید علماء کرام اور ارباب ِدانش امت مسلمہ کی علمی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔
- ایک معیاری ویب سائٹ کا اہتمام جس کے ذریعے سے ضروری دینی و ملی معاملات میں امت مسلمہ کی راہنمائی کی جا سکے، وغیرہ۔
ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو ترجیحاً قابل توجہ نہ، ہو اس لیے سب حضرات نے اس ایجنڈے سے اتفاق کیا اور خوشی کا اظہار کیا۔ میرے لیے یہ خوشی اس حوالے سے زیادہ باعث کشش تھی کہ میں گزشتہ ربع صدی سے دینی مدارس کے حلقوں میں یہی صدا بلند کرتا آ رہا ہوں اور اگرچہ میرے ایجنڈے میں اس کے علاوہ اور باتیں بھی شامل ہیں، لیکن بہرحال یہ کیا کم ہے کہ اس صدا کی بیشتر باتیں اب ملک کے بڑے بڑے دینی مدارس کے مہتمم حضرات کی زبان پر ہیں اور مختلف اطراف سے انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔
شرکاء کو اس سلسلے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق ریکٹر جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان، اسی یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی اور جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے تجربات و خیالات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا جو ہم سب کے لیے باعث استفادہ تھا، مگر دو باتیں میرے لیے زیادہ اطمینان کا باعث بنیں۔ ایک یہ کہ دینی مدارس میں جدید مغربی فکر و فلسفہ کو بطور فن پڑھانے کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور اگرچہ اس سلسلے میں کوئی مرتب نصاب موجود نہیں ہے، لیکن مختلف حلقوں میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سمت میں پیشرفت کی صورت پائی جاتی ہے۔
مولانا محمد تقی عثمانی نے بتایا کہ ان کے ہاں دارالعلوم کراچی میں پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم کی کتاب ’’جدیدیت‘‘ ایک نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے جس میں ارسطو سے لے کر برٹرینڈ رسل تک مغربی مفکرین کے فکر و فلسفہ کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعارف کرایا جاتا ہے اور مولانا محمد تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ پروفیسر حسن عسکری نے یہ کتاب انہی کے کہنے پر اس مقصد کے لیے لکھی تھی۔
ہمارے ہاں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں گزشتہ کئی سالوں سے یہ معمول ہے کہ دورۂ حدیث کے طلبہ کو میں خود اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر دفعہ وار سبقاً سبقاً پڑھاتا ہوں اور اسلامی احکام و تعلیمات کے ساتھ ان کے تقابلی جائزہ کے ساتھ ساتھ اس چارٹر کے فکری، علمی اور تاریخی پس منظر سے بھی دورۂ حدیث کے طلبہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان علماء کے لیے آج کی عالمی تہذیبی کشمکش اور مغرب اور مسلمانوں کے درمیان جاری ثقافتی بالادستی کی جنگ کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
میرے نزدیک دارالعلوم کراچی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں مغربی فکر و فلسفہ کی تعلیم کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت ابھی بالکل ابتدائی نوعیت کی ہے اور اسے صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے، لیکن بہرحال اس ضرورت کا احساس اور اس کو پورا کرنے کی عملی کوششوں کا آغاز خوش آئند ہے۔
دینی مدارس کے فضلاء کو آج کی ضروریات کے لیے تیار کرنے اور تربیت دینے کے لیے جن کورسز کی ضرورت ہے، وہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ گزشتہ دنوں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے ملتان میں ہونے والے اجلاس میں ان کورسز کے لیے جو ہماری اصطلاح میں ’’تخصصات‘‘ کہلاتے ہیں، پیشرفت کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مجلس عاملہ نے اس سلسلے میں سفارشات اور تجاویز مرتب کرنے کا کام میرے ذمہ لگایا ہے جو اگرچہ بہت کٹھن اور مشکل کام ہے اور میری استعداد اور اہلیت سے بہت بڑھ کر ہے، لیکن میں نے وقت کی ایک اہم ضرورت سمجھتے ہوئے اسے ایک آزمائش اور چیلنج کے طور پر قبول کر لیا ہے اور اس کے لیے قارئین سے خصوصی دعا کی درخواست کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس ذمہ داری سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں۔ (آمین ثم آمین)
دوسرا مسئلہ جو اس مجلس میں زیادہ دلچسپی کے ساتھ زیر بحث آیا، دینی مقاصد کے لیے الیکڑانک میڈیا کے استعمال کا ہے۔ ہمارے حلقوں میں تصویر، ویڈیو اور اسکرین کے بارے میں ابھی تک تحفظات پائے جاتے ہیں اور ان کے شرعی جواز یا عدم جواز پر بحث جاری ہے، لیکن ملی اور دینی مقاصد کے لیے ان کی ضرورت کا احساس بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جو مفتیان کرام اس کے عدم جواز پر زور دے رہے ہیں، ان کی بات شرعی دلائل کے حوالے سے کمزور نہیں ہے، لیکن اس کی ضرورت کا پہلو بھی کمزور نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے جواز کا فتویٰ دینے کی صورت میں جن خرابیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، وہ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔
لیکن بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں اجتہادی صلاحیت کے حامل علماء کرام شرعی اصولوں اور حالات زمانہ کے دائرے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اب سے ربع صدی قبل جنوبی ایشیا کے نامور مفتی حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ سے سینما کی اسکرین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فتویٰ دیا تھا، جو ان کے فتاویٰ کے مجموعہ ’’کفایت المفتی‘‘ میں موجود ہے، کہ فی نفسہ مباح ہے، لیکن اسے دیگر محرمات سے پاک ہونا چاہیے۔ پاکستان کے ایک بڑے مفتی حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کے بارے میں اس مجلس میں بتایا گیا کہ انہوں نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ٹی وی اسکرین اور ویڈیو کیمرہ پر آنے والی متحرک تصویر جب تک کسی پرنٹڈ شکل میں نہ آ جائے، وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے اور اس کا استعمال جائز ہے۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اس مجلس میں بتایا کہ دارالعلوم کراچی نے بھی اس نوعیت کا فتویٰ دے دیا ہے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اسکرین پر تصویر متحرک ہے، وہ تصویر نہیں ہے لیکن جب وہ تصویر کی صورت میں کسی جگہ ثبت ہو جائے تو پھر اس پر تصویر کے احکام لاگو ہو جائیں گے۔
بہرحال یہ اس حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، لیکن میں اس مسئلہ کو جواز و عدم جواز سے ہٹ کر ایک اور پہلو سے دیکھتا ہوں اور میرے نزدیک اسے اس زاویے سے بھی دیکھنا چاہیے کہ عکاظ اور اس طرح کے دیگر جاہلی میلوں میں اس سے کہیں زیادہ خرافات ہوتی تھیں جو آج کل ٹی وی پر ہو رہی ہیں، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان خرافات کے ماحول میں خود تشریف لے جا کر دین کی دعوت دیا کرتے تھے اور اس عوامی فورم کو دینی مقاصد کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک بزرگ علمی شخصیت سے دریافت کیا تھا کہ اسلام نے جنگ کے جو اصول وضع کیے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی جو اخلاقیات بیان فرمائی ہیں، کیا ان کی رو سے ایٹم بم کو شرعاً ایک جائز ہتھیار کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟ ان کا جواب نفی میں تھا۔ لیکن جب یہ ایک رائج الوقت ہتھیار ہے اور چونکہ یہ دشمن کے ہاتھ میں موجود ہے اس لیے ہمارے لیے جواز یا عدم جواز کی بحث میں پڑے بغیر اسے اختیار کرنا، ناگزیر ہو گیا ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا بھی ایک خوفناک جنگی ہتھیار کی شکل اختیار کر چکا ہے، ایسی صورت میں جوابی ہتھیار بھی تیار رکھنا چاہیے۔