حسب معمول سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران کراچی میں ہوں۔ کل اتوار کو ظہر کے لگ بھگ کراچی پہنچا، ملیر کینٹ کی ایک مسجد میں مختصر بیان ہوا اور تین بجے جامعہ بنوری ٹاؤن میں ’’مجلس علمی‘‘ کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مجلس علمی کراچی کے اکابر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، حضرت مولانا محمد طاسین رحمہم اللہ تعالٰی اور دیگر اہل علم کی یادگار ہے۔ مجلس علمی کی لائبریری جب ٹاور پر ہوتی تھی اس وقت حضرت مولانا محمد طاسینؒ کی خدمت میں حاضری ہوتی رہتی تھی، اب یہ لائبریری جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے قریب جمشید روڈ پر ہے اور مولانا مرحوم کے فرزند ڈاکٹر عامر طاسین لائبریری کی دیکھ بھال اور مختلف علمی و فکری سرگرمیوں کے اس تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے علماء کرام اور دیگر صاحب نظر حضرات کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں کچھ گزارشات ’’فکری مرعوبیت اور اس کا سدّباب‘‘ کے عنوان سے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔ اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ محترم ڈاکٹر عامر طاسین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اہل علم کے ساتھ اس ملاقات اور کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالٰی یہ مل بیٹھنا ہم سب کے لیے باعث خیر بنائیں، آمین۔ فکری مرعوبیت کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فکر کے بارے میں کچھ عرض کر دیا جائے کہ فکر کا دائرہ کیا ہے اور اس کے حوالے سے سرگرمیوں کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔
عام طور پر علم و فکر کی بات کی جاتی ہے، علم کا دائرہ اپنا ہے اور فکر کا دائرہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ فکر کا ایک اہم دائرہ جو میں سمجھا ہوں، صحابیؓ رسول حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ ذوق ہے جس کا وہ خود ان الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں کہ ’’کان الناس یسألون رسول اللہ عن الخیر و کنت اسألہ عن الشر‘‘ اصحابِ رسول عام طور پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بات پوچھا کرتے تھے جبکہ میں شر کے بارے میں دریافت کرتا رہتا تھا۔ خیر کے بارے میں علم اور معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شر کے بارے میں علم اور معلومات حاصل کرنا بھی ضروری ہے اور کسی شر سے اسی وقت صحیح طور پر بچا جا سکتا ہے جب اس کے بارے میں ضروری معلومات حاصل ہوں۔
میرے نزدیک فکر کا دائرہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی مجموعی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے فتنوں اور خرابیوں پر نظر رکھی جائے، ان کے اسباب و عوامل کے بارے میں مسلسل غور ہوتا رہے، ان کی نشاندہی کی جائے، ان کی طرف متعلقہ لوگوں کو توجہ دلائی جائے اور ان کے سدباب کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اس کی ایک مثال سامنے رکھ لیجئے کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ آذربائیجان کے علاقے میں ایک غزوہ کے سفر میں تھے اور فوج کے کمانڈر تھے، راستے میں کسی جگہ پڑاؤ تھا، ایک دن صبح کی نماز کے بعد اپنے خیمہ میں معمولات میں مصروف تھے کہ ساتھ والے خیمہ میں جھگڑے کا شور سنا، وہاں گئے تو دو ساتھیوں کو آپس میں الجھتے دیکھا۔ ایک روایت کے مطابق ان کا جھگڑا اس قدر بڑھ گیا کہ قریب تھا کہ تلواریں نکل آتیں۔ وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ اس شخص نے ایک لفظ پر مجھے ٹوک دیا اور کہا کہ میں غلط پڑھ رہا ہوں حالانکہ میں نے بالکل صحیح پڑھا ہے کیونکہ میں نے حضرت ابوالدرداءؓ سے یہ لفظ یوں ہی سنا ہے۔ دوسرے صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ غلط پڑھ رہا تھا میں نے اسے صحیح تلفظ بتایا جو میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے خود سنا تھا تو یہ جھگڑنے لگ گیا۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے دونوں سے ان کے الفاظ سنے تو قراءت کے اختلاف کے ساتھ دونوں صحیح پڑھ رہے تھے اور فرق صرف تلفظ اور قراءت کا تھا۔
ان دونوں کو سمجھا کر ان کا جھگڑا ختم کرایا لیکن حضرت حذیفہؓ خود سوچ میں پڑ گئے کہ تلفظ، لغت اور قراءت کا اختلاف اہل زبان میں تو چل سکتا ہے اور وہ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن قرآن کریم کے حوالہ سے یہ فرق غیر اہل زبان اور عجمیوں میں مسلسل جھگڑوں کا باعث بنے گا۔ انہوں نے اس بات کو محسوس کیا اور مدینہ منورہ جا کر امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ کی خدمت میں یہ سارا واقعہ بیان کر کے ان سے درخواست کی کہ غیر عربوں کو تلفظ و قراءت کے اس اختلاف کے متوقع نتائج سے بچانے کی کوئی صورت نکال لیجئے ورنہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کے الفاظ اور قراءتوں پر جھگڑتے رہیں گے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کو ازسرنو قریش کی لغت اور قراءت کی پابندی کے ساتھ دوبارہ مرتب کروایا اور اس متوقع فتنے کا سدّباب کر دیا۔
حضرت حذیفہؓ کا یہ ذوق اور محنت میرے خیال میں دینی حوالہ سے فکر کا ایک بڑا دائرہ ہے کہ خرابیوں اور فتنوں کے امکانات کو محسوس کیا جائے، ان کا جائزہ لیا جائے، نشاندہی کی جائے اور اس کے سدباب کے لیے متعلقہ حضرات کو توجہ دلائی جائے اور ایسا ہر دور میں ہوتا آرہا ہے۔
ایک اور بات جس کی طرف توجہ دلانا اس حوالے سے ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر دور میں تحفظات اور ضروریات کے دائرے الگ الگ رہے ہیں اور ان میں کشمکش بھی ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ تحفظات کا دائرہ یہ ہے کہ کوئی ایسی نئی بات نہ ہونے پائے جس سے دین کا کوئی نقصان ہو جائے اور ضروریات کا دائرہ یہ ہے کہ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ جو نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں یا نئے تقاضے جنم لیتے ہیں ان کو پورا کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ یہ دونوں دائرے دین کا حصہ ہیں، دونوں ضروری ہیں اور ہر زمانے میں بظاہر ان میں کشمکش بھی ہوتی رہی ہے۔
اس سلسلہ میں دو مثالیں بات سمجھنے کے لیے عرض کروں گا۔ ایک یہ کہ کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض اس کی صورت فرض کر کے اس کا حکم طے کرنا، جسے فقہ فرضی سے تعبیر کیا جاتا ہے‘‘ حضرات صحابہ کرامؓ اور کبار تابعینؒ کے دور میں پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی تھی اور وہ اس بات سے منع کرتے تھے کہ جب تک کوئی مسئلہ عملاً پیش نہ آجائے اس کا حکم معلوم کرنے کا تکلف نہ کیا جائے۔ اس بارے میں حضرت قتادہؓ اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کا ایک مکالمہ بھی تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت امام صاحبؒ نے حضرت قتادہؓ سے کوئی مسئلہ پوچھا، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ایسا کوئی مسئلہ پیش آیا ہے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ مسئلہ پیش تو نہیں آیا۔ اس پر حضرت قتادہؓ نے کہا کہ مجھ سے ایسا کوئی مسئلہ مت پوچھا کرو جو پیش نہ آیا ہو۔ یہ حضرت قتادہؒ کا ذوق اور ان کا ذہنی تحفظ تھا، جبکہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فقہاء کی مجلس قائم کر کے ۸۰ ہزار سے زائد جو مسائل مرتب کر کے امت کو دیے اور جن پر پوری فقہ حنفی کی عمارت کھڑی ہے اسی ’’فقہ فرضی‘‘ سے عبارت ہے۔ اسی طرح عقائد کے بارے میں عقلی بحثیں ابتدائی دور میں پسند نہیں کی جاتی تھیں اور انہیں گمراہی کا باعث سمجھا جاتا تھا حتٰی کہ ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے ایک محشی نے لکھا ہے کہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے فتوٰی دے دیا تھا کہ عقائد میں عقلی بحثیں کرنے والے متکلم کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لیکن بعد میں یونانی فلسفہ کی یلغار نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ عقائد کی زیادہ تر بحثیں عقلیات ہی کے حوالے سے ہونے لگیں اور علم العقائد نے باقاعدہ علم الکلام کا عنوان اختیار کر لیا۔
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تحفظات اور ضروریات کے دونوں دائرے ہمارے دینی ضرورت ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، نہ ضروریات کے لیے تحفظات کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ تحفظات کے لیے ضروریات سے اعراض کیا جا سکتا ہے۔ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ہی دین کی اصل ضرورت ہے۔ یہ گاڑی کے دو پہیے ہیں، جس طرح گاڑی کے پہیوں کے درمیان توازن جسے ’’وہیل بیلنسنگ‘‘ کہتے ہیں قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ گاڑی کسی ایک طرف لڑھک جاتی ہے، اسی طرح تحفظات اور ضروریات کے درمیان توازن قائم رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ دین کے علمی و فقہی ڈھانچے کا توازن بگڑ سکتا ہے۔
ان دو گزارشات کے بعد میں یہ عرض کروں گا کہ فکری مرعوبیت ہمارے لیے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے سدّباب کی راہیں تلاش کرنے کے لیے کسی نئی تگ و دو کی ضرورت ہے۔ ہم اس مسئلہ سے اس سے قبل بھی دوچار ہو چکے ہیں اور ہمارے اکابر و اسلاف نے اس سے بہت خوبی کے ساتھ نمٹا ہے۔ آج ہمارے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی اس کشمکش کے بارے میں علم حاصل کریں اور انہی بزرگوں کے نقش قدم کو اپنانے کی کوشش کریں۔ یہ صورتحال ہمیں سب سے پہلے اس وقت پیش آئی تھی جب یونانی فلسفہ و منطق نے ہماری صفوں میں گھس کر عقائد کے باب میں شکوک و شبہات کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ معتزلہ کا وجود اسی پس منظر میں سامنے آیا تھا اور ایک دور میں امت کے ایک حصے کی اس سے مرعوبیت کا عالم یہ تھا کہ اہل دین اور اہل علم کے لیے آزمائشوں کے دروازے کھل گئے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اسی معاملے میں کوڑے کھائے تھے اور بہت سے دیگر اہل علم نے اسی پر قید و بند اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ مامون الرشید کے دور میں اس فتنہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی تھی اور علماء اہل سنت پر آزمائش اور مصائب کا دور شروع ہوگیا تھا۔ عقائد کے بارے میں عقلیات کے یہ مباحث یونانی فلسفہ و منطق کی آمد سے پیدا ہوئے تھے اور ہمارے اس وقت کے بزرگوں نے ان کے سدباب کے لیے دو راستے اختیار کیے تھے جو دونوں ضروری تھے:
- ایک راستہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے رفقاء کا تھا کہ ظاہر پر سختی سے قائم رہتے ہوئے اس کے لیے قربانیاں دیں اور مکمل عزیمت و استقامت کے ساتھ مقابلہ پر ڈٹ گئے۔
- جبکہ دوسرا راستہ امام ابوالحسن اشعری کا تھا کہ یونانی فلسفہ و منطق پر عبور بلکہ تفوق حاصل کر کے یونانی فلسفہ کے پیدا کردہ اعتقادی شبہات کا فلسفہ کی زبان اور اس کی اصطلاحات میں رد کیا۔
امام احمد بن حنبلؒ کا راستہ تحفظات کا تھا اور امام ابوالحسن اشعری کا دائرہ ضروریات کا تھا۔ حنابلہ (حنبلیوں) اور اشاعرہ (اشعریوں) کے درمیان کشمکش بھی موجود رہی ہے جو اَب بھی موجود ہے لیکن دین کو دونوں کی ضرورت تھی اور دونوں نے امت کے اعتقادی نظام کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔
میں ایک اور حوالہ سے بھی بات کرنا چاہوں گا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے کوڑے کھائے ہیں اور سختیاں برداشت کی ہیں اس بات پر کہ ’’القرآن کلام اللہ غیر مخلوق‘‘ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔ مگر امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو نیشاپور سے جلاوطن ہونا پڑا اس قول پر کہ ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ میری زبان سے قرآن کا تلفظ مخلوق ہے۔ اس لیے کہ بعض حنابلہ امام احمد بن حنبل کے ارشاد پر اس انتہا پر چلے گئے تھے کہ ’’کلام نفسی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’کلام لفظی‘‘ کو بھی غیر مخلوق سمجھنے لگے تھے اور اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ ہم قرآن کریم کے جن الفاظ کا تلفظ کرتے ہیں وہ بھی مخلوق نہیں ہیں۔ مناظروں اور مباحثوں میں عام طور پر ایسا ہو جاتا ہے کہ دونوں فریق انتہا پر چلے جاتے ہیں جنہیں متوازن کرنے کے لیے کچھ اور شخصیات کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ امام بخاریؒ نے ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ کہہ کر اسے متوازن کیا مگر اس پر اپنے حنبلی شیخ امام محمد بن یحیٰی الذہلی کی طرف سے گمراہی کا فتوٰی اور نیشاپور سے جلاوطنی کا حکم سننا پڑا جس پر امام بخاری نیشاپور چھوڑ کر بخارا چلے گئے۔ اس لیے میری گزارش یہ ہے جو بہت سے دوستوں کو میں سمجھا نہیں پا رہا کہ تحفظات اور ضروریات کے دونوں دائرے دین کا حصہ ہیں اور ان کی باہمی کشمکش کے باوجود ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔
’’فکری مرعوبیت‘‘ کے بارے میں عرض کر رہا تھا کہ یونانی فلسفہ و منطق کی یلغار کے بعد اس فکری مرعوبیت کا ہمیں اجتماعی طور پر سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر اہل حق اور اکابر اہل علم مرعوب نہیں ہوئے تھے، نہ طاقت اور جبر سے مرعوب ہوئے تھے اور نہ ہی فکر و فلسفہ اور استدلال و منطق میں معتزلہ انہیں مرعوب کر سکے تھے۔ لیکن بہت سے حلقے مرعوب بھی ہوگئے تھے حتٰی کہ اس عقل پرستی نے سرکاری سرپرستی بھی حاصل کر لی تھی جو اربابِ علم و دین کے لیے سخت آزمائشوں کا باعث بن گئی تھی۔ اس مرعوبیت کے سدباب کے لیے علمی و فکری میدان میں ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی، ابن رشد، امام غزالی اور ابن تیمیہ جیسے اساطین علم سامنے آئے۔ انہوں نے یونانی فلسفہ و فکر پر عبور حاصل کر کے اس کی زبان و اصطلاح میں اس کے پیدا کردہ اعتقادی مسائل و شکوک کا جواب دیا اور یونانی فلسفہ کو اسی کے میدان میں شکست دے کر اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کا تحفظ کیا۔
آج بھی وہی صورتحال ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یونانی منطق و فلسفہ کی جگہ مغربی فکر و فلسفہ نے لے لی ہے جو ’’ہیومینٹی کا فلسفہ‘‘ کہلاتا ہے، انسانی حقوق کا فلسفہ کہلاتا ہے، فکر و رائے کی آزادی کا فلسفہ کہلاتا ہے اور فرد کی آزادی کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ اس فکر و فلسفہ نے دنیا کے ایک بڑے حصے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر اسلام اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور امت مسلمہ کے اہل دین اس فکر و فلسفہ کو قبول کرنے سے انکار کر کے اس پر سختیاں جھیل رہے ہیں۔ ہماری درخواست صرف اتنی ہے کہ اس فکر و فلسفہ کو قبول کرنے سے انکار ضروری ہے اور ہمارا موقف بھی انکار کا ہے، لیکن اس فکر و فلسفہ سے واقفیت حاصل کر کے اور اس پر عبور بلکہ گرفت حاصل کر کے اس کی زبان اور اصطلاحات میں اس کا جواب اور رَد بھی اسی طرح ضروری ہے، جس طرح یونانی فکر و فلسفہ کا جواب اور رَد اس کی زبان میں اور اسی کی اصطلاحات میں دیا گیا تھا، چنانچہ اہل علم اور اہل دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا اہتمام کریں۔
ان معروضات کے بعد سوال و جواب کا مرحلہ بھی تھا جس میں بہت سے سوالات کیے گئے ، ان میں سے چند اہم سوالات کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں۔
ایک سوال یہ تھا کہ مغربی فکر و فلسفہ کا مطالعہ کرنے والے بعض لوگ اس کی بعض باتوں کو قبول کر لینے کی بات بھی کرنے لگتے ہیں، اس کا حل کیا ہے اور کیا یہ مرعوبیت نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اصولی طور پر مرعوبیت کے بارے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا دائرہ کیا ہے۔ اگر مغرب یا کسی بھی دشمن کی کوئی ایسی بات قبول کر لی جائے جو قرآن و سنت کی نصوص کے خلاف ہو اور اس کے لیے ہمیں اپنے کسی مسلّمہ اصول اور قانون سے دستبردار ہونا پڑے تو یہ بلاشبہ مرعوبیت ہے اور اس کو کسی سطح پر بھی روا نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر ایسی کوئی بات اگر سامنے آتی ہے جو ہمارے ہاں بھی موجود تھی اور اب متروک ہو چکی ہے اور اس سے ہمارے دینی مسلّمات پر کوئی زد نہیں پڑتی تو اسے قبول کر لینے کو مرعوبیت قرار دینا درست بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دو مسئلوں کا حوالہ دوں گا:
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشین کے طور پر امت کی حکمرانی کے لیے نامزدگی کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ اسے امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب امت نے کیا تھا اور اس کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ میں عمومی بحث و مباحثہ ہوا تھا۔ جس سے یہ اصول قائم ہوا کہ خلافت کا انعقاد اور حکمرانی کا حق امت کی اجتماعی صوابدید کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، اسے اگر مغرب نے جمہوریت کے نام سے ایک نیا رنگ دیا ہے تو ہم اسے مکمل طور پر قبول نہ بھی کریں مگر اس کی وجہ سے اس اصول سے انکار تو نہیں کر دیں گے کہ اسلام عوام اور امت کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے حکمران کا خود انتخاب کرے۔ مجھے اس کی اصطلاح سے بحث نہیں ہے لیکن اگر آج کی دنیا کو یہ اصول سمجھانے کے لیے آج کی اصطلاح میں بات کر بھی دی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
- دوسری بات یہ ہے کہ ایک فلاحی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کے لیے حضرت عمر فاروقؓ نے جو قواعد و ضوابط طے کیے تھے اور بیت المال کو معاشرے کے تمام نادار افراد کی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا تھا، اس کو آج مسلم ممالک کی اکثریت نے متروک قرار دے رکھا ہے۔ مگر مغرب کے بعض ممالک اسے اپنائے ہوئے ہیں اور اس امر کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یہ سسٹم ہم نے حضرت عمرؓ سے لیا ہے۔ یہ بات اصل میں ہماری تھی جو ہم نے چھوڑ دی اور مغرب نے اپنا لی، اب کیا اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ اسے مغرب نے اپنا لیا ہے؟ میرے خیال میں ہمیں اعتدال و توازن سے کام لینا چاہیے اور وہ باتیں جو ہماری تعلیمات کا حصہ رہی ہیں اور اب ہمارے معاشرے میں متروک سمجھی جا رہی ہیں، انہیں دوبارہ اپنا لینے کی بات کو مرعوبیت قرار دینا کسی طرح بھی انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ البتہ منصوصات اور مسلمات کے بارے میں ہمیں بے لچک رویہ قائم رکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں کوئی سودے بازی یا رواداری برداشت نہیں کرنی چاہیے۔
ایک سوال جناب جاوید احمد غامدی کے بارے میں میرے طرزعمل کے سلسلہ میں ہوا کہ میں انہیں سپورٹ کر رہا ہوں۔ جس کے جواب میں یہ گزارش کی کہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے، جاوید غامدی صاحب کو میں نے ہمیشہ ’’متجددین‘‘ میں شمار کیا ہے، ان کے بہت سے افکار و خیالات پر میں نے کھلے بندوں تنقید کی ہے اور میرے ایک درجن کے لگ بھگ تنقیدی مضامین مختلف اوقات میں روزنامہ اوصاف، روزنامہ پاکستان، روزنامہ اسلام اور ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں شائع ہو چکے ہیں جو کتابی شکل میں بھی مکتبہ امام اہل سنت (جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ) کی طرف سے طبع ہوئے ہیں۔ البتہ میرا جرح و تنقید کا اسلوب روایتی انداز سے مختلف ہے، میں تنقید کو علمی اور فکری دائرے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اسے ذاتی یا شخصی مسئلہ بنانے سے میں نے ہمیشہ گریز کیا ہے اور اسی کو صحیح طرز عمل سمجھتا ہوں۔
ایک سوال یہ ہوا کہ ہم نے ماہنامہ الشریعہ میں علمی مسائل پر کھلے بحث و مباحثہ کی جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور جس پر ہم بہت سے دوستوں کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، کیا اسے جاری رکھنا ضروری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں کھلے علمی مباحثہ کو دو حوالوں سے ضروری سمجھتا ہوں:
- اس حوالہ سے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کا طرز استدلال یہی ہے اور اسی وجہ سے میں فقہ حنفی کو شخصی فقہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے اجتماعی فقہ کہتا ہوں جو کم و بیش چالیس فقہاء کی اجتماعی مجلس میں کھلے علمی مباحثہ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اس مجلس میں حضرت امام اعظمؒ کی رائے سے اختلاف کیا جاتا تھا، ایک دوسرے کے موقف کے خلاف دلائل دیے جاتے تھے، مباحثہ ہوتا تھا اور بعض مسائل پر مسلسل کئی روز تک بحث جاری رہتی تھی۔ اور اگر مجلس میں شریک کسی بزرگ کو مجلس کے اجتماعی فیصلے سے اتفاق نہیں بھی ہوتا تھا تو اسے اپنا قول الگ طور پر درج کرانے کا حق ہوتا تھا جسے ہم آج کی اصلاح میں اختلافی نوٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔ میری طالبعلمانہ رائے میں آج جو علمی و فکری مسائل سامنے آرہے ہیں ان کے بارے میں بھی اسی کھلے مباحثے کا طرز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
- دوسری وجہ یہ ہے کہ جو نوجوان اہل علم آج کے دور میں قدیم اور جدید دونوں علوم سے مناسبت رکھتے ہیں اور دونوں قسم کے لٹریچر پر ان کی وسیع نظر ہے، وہ اگر کوئی رائے دیتے ہیں تو اسے رائے کے درجہ میں سننا ضرور چاہیے، قبول کرنا یا نہ کرنا بعد کی بات ہے مگر انہیں رائے کے حق سے محروم کر دینا درست بات نہیں ہے۔ ہمیں ان لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دینا چاہیے، ان کی بات کھلے دل سے سننی چاہیے، اس سے اختلاف علمی انداز میں دلائل کے ساتھ کرنا چاہیے اور افہام و تفہیم کے لہجے میں ان کی رائے کی غلطی کو واضح کرنے کی طرز اختیار کرنی چاہیے۔
ماہنامہ الشریعہ میں کھلے علمی مباحثے کی پالیسی اسی وجہ سے ہے، میں اسے صرف درست نہیں کہتا بلکہ ضروری سمجھتا ہوں اور بہت سے دوستوں کے تحفظات کے باوجود ہم اس طرز عمل اور پالیسی کے اثرات محسوس کر رہے ہیں اور نوجوان اہل علم کو گھٹن کے ماحول سے نکالنے میں یہ مفید نظر آنے لگی ہے۔