کیا نکاح کے لیے مرد و عورت کا باہمی ایجاب و قبول کافی ہے؟

   
تاریخ : 
۳ فروری ۲۰۰۰ء

وفاقی شرعی عدالت کے ایک حالیہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے گزشتہ روز اپنے کالم میں ہم نے گزارش کی تھی کہ نکاح میں صرف میاں بیوی کے اقرار کو کافی سمجھتے ہوئے گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار نہ دینا قرآن و سنت کے احکام کے صریح منافی ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کی وضاحت ہمارے کالم کی اشاعت سے پہلے ہی سامنے آچکی ہے جو لاہور کے ایک قومی روزنامہ نے ۲۲ جنوری ۲۰۰۰ء کو یوں شائع کی ہے کہ

’’وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ روز شائع ہونے والے عالم زیب بنام سرکار کے فیصلے کی وضاحت کی ہے۔ عدالت کے مطابق جب میاں بیوی ایک دوسرے سے نکاح کی تصدیق کریں تو پھر گواہوں کو عدالت میں طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قبل ازیں عدالت کے دیے گئے اسی نوعیت کے فیصلے میں ایسا ہی موقف اختیار کیا گیا تھا۔‘‘

اس میں اگرچہ مسئلہ کی نوعیت بدل گئی ہے کہ فاضل عدالت نے نکاح کے انعقاد میں گواہوں کی موجودگی کی شرط کو غیر ضروری قرار نہیں دیا بلکہ عدالت میں ضرورت پیش آنے پر گواہوں کو عدالت میں طلب کرنے کو غیر ضروری قرار دیا ہے اور میاں بیوی کے باہمی اقرار و اعتراف کو کافی تصور کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فاضل عدالت کے اس فیصلہ میں ابہام باقی ہے اور معاملہ پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ اس لیے کہ بات ’’خفیہ نکاح‘‘ کی ہو رہی ہے کیونکہ تصفیہ طلب معاملہ میں عدالت کے سامنے ایسی صورت رکھی گئی ہے کہ ایک جوڑے کے باہمی تعلق کی بنا پر بچی پیدا ہوگئی ہے اور اس جوڑے کے نکاح کا معاشرے میں کسی کو علم نہیں ہے جس کی وجہ سے اس بچی کو ناجائز اولاد سمجھا جا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ان کے خلاف حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اسی حوالہ سے ماتحت عدالت نے اس بچی کو ناجائز اولاد قرار دیتے ہوئے اس کے ماں باپ کو سزا سنائی ہے۔

چنانچہ یہاں توجہ طلب امور دو ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

  1. ایک یہ کہ کوئی ایسا نکاح جسے معاشرے سے خفیہ رکھا گیا ہو اور میاں بیوی کہلانے والے جوڑے کے علاوہ کسی اور کو اس کا علم نہ ہو، اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
  2. دوسرا یہ کہ جس نکاح کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہو اور جس کے بارے میں خود جوڑے کا اعتراف ہو کہ وہ خفیہ نکاح ہے، کیا اس نکاح کے قانونی ثبوت کے لیے صرف ان دونوں کا باہمی اعتراف کافی ہے؟

جہاں تک خفیہ نکاح کا تعلق ہے ہم اپنی سابقہ گزارشات میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے اسے ولا متخذات اخدان کہہ کر حرام کاری قرار دیا ہے بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ نکاح کھلے بندوں کرو۔ حتیٰ کہ مسجد میں نکاح کرنے کو مسنون قرار دیا گیا ہے جو کہ پبلک پلیس ہے اور اس موقع پر جناب رسول اللہؐ نے ’’دف‘‘ تک بجانے کی اجازت دی ہے تاکہ اردگرد کے لوگوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے پڑوس میں شادی اور نکاح کی تقریب ہو رہی ہے اور ایک جوڑے میں قائم ہونے والا یہ رشتہ کسی طرح خفیہ نہ رہے۔

تفسیر قرطبیؒ میں سورۃ النساء آیت ۶۲ کے ضمن میں یہ روایت درج ہے کہ جناب رسول اکرمؐ ایک شادی میں تشریف لائے تو وہاں دف بجایا جا رہا تھا۔ آنحضرتؐ نے اس موقع پر فرمایا کہ ھذا النکاح لا السفاح ولا نکاح السر کہ نکاح یہ ہے جو زنا نہیں ہے اور نہ ہی خفیہ نکاح ہے۔

جبکہ تفسیر خازن میں اسی آیت کریمہ کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور میں زنا کی دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ عورت بدکار ہوتی تھی اور جو شخص بھی اس کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتا وہ اس کے لیے تیار ہو جاتی تھی۔ اس کو قرآن کریم میں سفاح کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔ اور دوسری صورت یہ تھی کہ ایک عورت ایک مخصوص مرد کے ساتھ خفیہ جنسی تعلقات قائم کر لیتی تھی اور اس کے علاوہ کسی اور مرد کی طرف التفات نہیں کرتی تھی۔ اسے قرآن کریم نے متخذات اخدان سے تعبیر کیا ہے اور دونوں صورتوں کو زنا قرار دے کر ان کی نفی کی ہے۔ اس لیے کسی بھی مرد اور عورت کے درمیان ایسا جنسی تعلق جو معاشرے کے علم میں نہ ہو، اسے شریعت میں نکاح السر یعنی خفیہ نکاح قرار دیا گیا ہے اور اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ دو گواہوں کی بات تو کم سے کم حد ہے کہ کم از کم دو افراد کے علم میں یہ نکاح ہو۔ حتیٰ کہ امام مالکؒ تو اسے بھی کافی نہیں سمجھتے اور اعلان اور تشہیر کو نکاح کے جواز کے لیے شرط قرار دیتے ہیں۔

اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فاضل عدالت کے فیصلہ کے مطابق، جس کا ذکر ہم سابقہ کالم میں کر چکے ہیں، اس نکاح پر مرد اور عورت کے باہمی اقرار کے علاوہ اور کوئی ثبوت موجود نہیں ہے جسے فاضل عدالت نے ’’تصادق زوجین‘‘ قرار دیا ہے۔ اس نکاح کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور ماتحت عدالت نے نکاح کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دونوں کو سزا سنا دی ہے۔ کیا اس صورت میں صرف مرد اور عورت کا باہمی اقرار ان کے نکاح کے قانونی ثبوت کے لیے کافی ہے؟ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر متنازعہ ہونے کی صورت میں بھی نکاح کے ثبوت کے لیے صرف مرد اور عورت کے باہمی اقرار کو کافی سمجھ لیا جائے تو نکاح میں گواہوں کی موجودگی کی کوئی افادیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اور نکاح کے لیے مجلس کا انعقاد، خطبہ، گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول اور رجسٹریشن وغیرہ سب کام بلاضرورت سمجھے جائیں گے۔

اور اس صورت میں یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اگر نکاح کے ثبوت کے لیے صرف مرد اور عورت کا باہمی اقرار کافی ہے تو قرآن کریم نے ولا متخذات اخدان اور ولا متخذی اخدان کے الفاظ کے ساتھ دورِ جاہلیت کے جس خفیہ نکاح کی نفی کی ہے اس کی عملی شکل کیا قرار پائے گی؟ اس لیے ہم اس گزارش کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کی مذکورہ وضاحت کافی نہیں ہے اور اسے اس مسئلہ کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter