گزشتہ دنوں پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف نے ملک میں ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کا نظام رائج کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تو حکمران پارٹی کی طرف سے ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں خلافتِ راشدہ کا نظام کیوں رائج نہیں کیا؟ اور اس کے ساتھ ہی اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا کہ خلافتِ راشدہ کا نظام رائج کرنے کے لیے چونکہ مروجہ نظام اور سسٹم کا خاتمہ ضروری ہے اس لیے یہ نعرہ مروجہ سسٹم کو ختم کرنے کے لیے سازش کے طور پر لگایا جا رہا ہے۔
جہاں تک مروجہ نظام کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت راشدہ کے نظام یا کسی بھی اور اصلاحی نظام کے نفاذ کے لیے اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے اور مروجہ سسٹم کے مکمل خاتمہ کے بغیر نہ یہاں اسلام آ سکتا ہے اور نہ ہی قومی زندگی کے کسی شعبہ میں اصلاحِ احوال کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اسی انقلاب کو ’’فکِ کُل نظام‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ دنیا میں مروجہ تمام نظاموں کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ اسلامی نظام مکمل طور پر انسانی معاشرہ میں نافذ ہو سکے۔
البتہ یہ بات ضرور محلِ نظر ہے کہ خلافتِ راشدہ کا نظام نافذ کن لوگوں کے ہاتھوں ہو گا اور کیا ملک کے موجودہ سیاستدان اس کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ سے راقم الحروف نے خود سنا کہ تبلیغی جماعت کے سربراہ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ نے ڈھاکہ میں علماء کرام کے ایک خصوصی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پہلے رجال کار تیار کریں کیونکہ جن لوگوں سے آپ نفاذِ اسلام کا مطالبہ کر رہے ہیں ان میں اس کی صلاحیت ہی نہیں ہے، ان لوگوں سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جُنبی سے کہا جائے کہ وہ نماز پڑھا دے، اول تو وہ مصلے پر کھڑا نہیں ہو گا، اور اگر لوگوں کے زور دینے پر کھڑا ہو بھی گیا تو نماز کسی کی بھی نہیں ہو گی۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم آج کل اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اسلام اور خلافتِ راشدہ کا مقدس نام گزشتہ نصف صدی سے اقتدار کے حصول یا اس کے تحفظ کے لیے تو مسلسل استعمال ہو رہا ہے لیکن اس کی عملداری کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک سامنے نہیں آئی۔ اور اگر کسی وقت کوئی جزوی کام اسلامائزیشن کے حوالہ سے ہوا بھی ہے تو تربیت و صلاحیت کے فقدان کے باعث وہی جُنبی کے نماز پڑھانے والی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیے دینی حلقوں کو چاہیے کہ خلافت راشدہ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عام لوگوں کی ذہن سازی اور جال کار کی تیاری کی طرف توجہ دیں اور ان مقدس اصطلاحات کو اقتدار اور دولت کے رسیا سیاستدانوں کا ’’بازیچۂ اطفال‘‘ بننے سے بچائیں۔