سوال: آج مختلف اطراف سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور اس میں عصری علوم اور تقاضوں کو شامل کرنے کی آواز اٹھ رہی ہے جبکہ ہمارے اکابر نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی بزرگ نے اس مقصد کے لیے کوشش کی۔ کیا موجودہ رجحان اکابر کے طرز عمل سے انحراف نہیں ہے؟ (منظور احمد، سمن آباد، گوجرانوالہ)
جواب: یہ کہنا کہ ہمارے اکابر نے دینی مدارس کے نصاب میں عصری تقاضوں کو شامل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے یا اسے پسند نہیں کیا، خلافِ واقعہ بات ہے۔ سب سے پہلے دینی مدارس اور عصری علوم کو اکٹھا کرنے کی بات شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے کی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ ندوۃ العلماء لکھنو کا قیام بھی اسی جذبہ کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور اسی مقصد کے لیے جامعہ ملیہ دہلی کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس ضمن میں جمعیۃ العلماء ہند کی مندرجہ ذیل قرارداد بطور خاص اہمیت رکھتی ہے جو جمعیۃ کے تیرہویں عمومی اجلاس منعقدہ لاہور بتاریخ ۲۰ تا ۲۱ مارچ ۱۹۴۲ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی زیر صدارت منظور ہوئی تھی۔ قرارداد کا متن یہ ہے:
’’جمعیۃ العلماء ہند کا یہ اجلاس مدارس عربیہ دینیہ کے مروجہ نصاب میں دورِ حاضر کی ضرورتوں کے موافق اصلاح و تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کرتا ہے اور مدارس عربیہ کے ذمہ دار حضرات اور تعلیمی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی اس پر غور کرنے کے لیے باہمی مشورے اور تعاون سے مقرر کر کے ایک ایسا نصاب مرتب کرائیں جو دینی علوم کی تکمیل کے ساتھ ضروریات عصریہ میں بھی مہارت پیدا کرنے کا کفیل ہو، اور اس سلسلہ میں جمعیۃ العلماء ہند ارباب علم سے رائے لے کر اپنی صوابدید کے مطابق حتی الوسع جلد کوئی مؤثر اقدام کرے۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ درس نظامی کے نصاب میں عصری تقاضوں کے امتزاج کی ضرورت کا احساس ہمارے اکابر کو بھی تھا، صرف اتنی بات تھی کہ وہ تحریکِ آزادی میں مصروفیات کے باعث اس سمت کوئی نتیجہ خیز عملی پیش رفت نہیں کر سکے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ۱۹۴۲ء میں اس ضرورت کا احساس اس قدر شدت کے ساتھ تھا تو آج ۱۹۹۰ء میں اس کی اہمیت اور ضرورت میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہوگا۔