۲۵ اپریل ۱۹۹۹ء کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں پاکستان شریعت کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والا سیمینار اگرچہ سود کے موضوع پر تھا لیکن میری طرح اور بہت سے دوستوں کے لیے اس لحاظ سے خوشی کا عنوان بن گیا کہ اس میں جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں اور پاکستان شریعت کونسل کے سرکردہ حضرات شریک ہوئے۔ گویا پندرہ بیس برس پہلے کی متحدہ جمعیۃ علماء اسلام کے احباب ایک جگہ جمع ہوئے اور سود کے موضوع پر مشترکہ اظہار خیال کرنے کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کی طرف سے دیے گئے ظہرانہ میں بھی شرکت کی۔
مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ میں تقسیم ہو گئی تھی، کچھ عرصہ کے بعد وجہ نزاع ایم آر ڈی ختم ہو جانے کے بعد ان دونوں گروپوں میں اتحاد ہوا تو مولانا سمیع الحق کے نام سے ایک نیا گروپ وجود میں آگیا۔ اور ان کے درمیان مصالحت و اتحاد کی مسلسل کوششوں میں ناکامی کے بعد مولانا فداء الرحمان درخواستی، مولانا منظور احمد چنیوٹی، راقم الحروف اور کچھ دیگر رفقاء نے دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے نام سے الگ جماعت بنا لی اور انتخابی سیاست کو خیرباد کہہ کر فکری و علمی محاذ پر تھوڑے بہت کام کا آغاز کر دیا۔
پاکستان شریعت کونسل کے مقاصد میں نفاذ اسلام کے لیے ذہن سازی اور فکری و علمی جدوجہد کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں بالخصوص جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کو آپس میں قریب کرنا بھی ہے کیونکہ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔چنانچہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۶ اپریل کو گوجرانوالہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں زیرسماعت رٹ کے پس منظر میں ۲۵ اپریل کو کراچی میں سیمینار منعقد کیا جائے گا تو اس کے لیے یہ طے پایا کہ کراچی کی سطح پر اس سیمینار میں جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کے حضرات کو جمع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سیمینار سود کے موضوع پر تھا اس لیے وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان سے گزارش کی گئی کہ وہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ چونکہ سپریم کورٹ کے ایپلٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انہی کا لکھا ہوا فیصلہ زیربحث ہے اس لیے وہ اس مرحلہ میں اس عنوان پر ہونے والے کسی اجتماع میں شریک ہونے اور اس میں اظہار خیال کو مناسب نہیں سمجھتے۔
سیمینار پاکستان شریعت کونسل کے ہیڈ آفس جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی میں ۲۵ اپریل ۱۹۹۹ء کو ۱۱ بجے سے ۲ بجے تک ہوا۔ کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمان درخواستی نے صدارت کی جبکہ مولانا عبد الرشید انصاری نے اسٹیج سیکرٹری کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ مقررین میں جمعیۃ علماء اسلام (ف) کے مرکزی راہنما سابق سینیٹر حافظ حسین احمد، جمعیۃ علماء اسلام (س) صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل خواجہ شرف الاسلام ایڈووکیٹ، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے شیخ الحدیث مولانا زرولی خان، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا احسان اللہ ہزاروی اور راقم الحروف کے علاوہ حیدرآباد سے مولانا عبد المتین قریشی اور مولانا قطب الدین انصاری بھی شامل تھے۔ جبکہ شرکاء میں دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ مولانا قاری شیر افضل، مولانا عبد الکریم عابد مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا صوفی عبد الحنان، مولانا غلام مصطفٰی فاروقی، قاری عبد السلام صدیقی، حافظ احمد علی اور لندن سے آئے ہوئے مولانا قاری محمد ہاشم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا زرولی خان نے گفتگو کا آغاز کیا اور اس نکتہ پر اظہار خیال کیا کہ معاشرہ میں برائیوں کے فروغ اور اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام نے منکرات پر گرفت کرنا چھوڑ دی ہے اور مصلحتوں کا شکار ہوگئے ہیں حالانکہ ہمارے اکابر کا یہ طریقہ نہیں تھا اور انہیں جہاں بھی خرابی سر اٹھاتی نظر آتی تھی وہ اس کے خلاف کمربستہ ہو جاتے تھے لیکن آج ہم تساہل سے کام لے رہے ہیں جس کی وجہ سے منکرات اور فواحش کو مسلسل فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ انہوں نے علماء کرام پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور منکرات و فواحش کی روک تھام کے لیے جرأت و حوصلہ کے ساتھ آواز بلند کریں۔
حافظ حسین احمد نے سود کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سود صرف ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں نے سود ہی کے ذریعے مسلم حکومتوں کو شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور عالم اسلام کو اقتصادی پالیسیوں کی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اس لیے جب تک دنیا کی تمام مسلم حکومتیں سود کے مسئلہ پر جرأت مندانہ موقف اختیار کر کے عالمی مالیاتی اداروں کو صاف جواب نہیں دیتیں اس وقت تک یہودیوں کے شکنجے سے مسلمانوں کی گردن کا نکلنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہودی سرمایہ داروں نے صرف مسلمان حکومتوں کو نہیں بلکہ مسیحی حکومتوں کو بھی گرفت میں لے رکھا ہے اس لیے ان کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ یہودی منصوبہ سازوں کے اثر سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کے ساتھ کوئی پالیسی طے کر سکیں۔ حتیٰ کہ امریکہ کے صدر بل کلنٹن جیسا با اختیار شخص بھی فلسطین اور عربوں کے مسئلہ میں کوئی لچک ظاہر کرتا ہے تو اسے وائٹ ہاؤس کی مونیکا جیسی ملازمہ کے ذریعے ذلیل کر کے بتا دیا جاتا ہے کہ اس کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ یہودی منصوبہ سازوں کی طے کردہ پالیسیوں کے دائرہ میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے جس طرح خلیج عرب پر پنجے گاڑ رکھے ہیں اور عربوں کے تیل اور دولت کا وحشیانہ استحصال کیا جا رہا ہے اس کا سلسلہ اگر چند سال اور جاری رہا تو سعودی عرب، کویت اور امارات جیسے مالدار ترین ممالک بھی کنگال ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ خلیج عرب سے امریکی فوجوں کے انخلا کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
حافظ حسین احمد نے کہا کہ پاکستان کی کسی حکومت اور عدالت کے ججوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ سودی نظام کے عملی خاتمہ کی طرف کوئی قدم بڑھائیں گے کیونکہ سود کے بارے میں سرکاری حلقوں کی طرف سے جب بھی کوئی بات چھیڑی جاتی ہے تو اس کا مطلب سودی نظام سے نجات حاصل کرنا نہیں بلکہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں پر دباؤ بڑھانا ہوتا ہے تاکہ انہیں قرضوں کے حوالہ سے اپنی کچھ شرائط کو نرم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس لیے اگر دینی جماعتیں واقعی چاہتی ہیں کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ ہو تو اس کے لیے عوام کی ذہن سازی کرنا ہوگی اور انہیں اس بات کے لیے تیار کرنے کی مہم چلانا ہوگی کہ وہ بینکوں کا بائیکاٹ کریں اور ان سے اپنی رقوم واپس نکلوا لیں، اس کے بغیر موجودہ حکمران طبقہ کو سودی نظام کے عملی خاتمہ پر آمادہ نہیں کیا جا سکے گا۔
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں سود کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے دو تین واقعات کا تذکرہ کیا کہ طائف کے وفد نے اسلام قبول کرنے کے لیے یہ شرط عائد کی تھی کہ ان کے کاروبار کا دارومدار سود پر ہے اس لیے وہ سود کو ترک نہیں کر سکیں گے لیکن آنحضرتؐ نے یہ شرط مسترد کر دی تھی۔ اسی طرح نجران کی عیسائی آبادی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تحریری معاہدہ کیا تھا اس میں واضح طور پر سودی کاروبار سے ممانعت شامل ہے اور معاہدہ میں درج ہے کہ اگر کسی ذمہ دار شخص نے سود کا لین دین کیا تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔ اسی طرح حضور نبی کریمؐ نے سودی معاشرہ کو تبدیل کر کے جو نیا معاشرہ قائم کیا تھا اس کے کسی شعبہ میں سود کی کسی قسم کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی آپؐ نے امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے پیش گوئی فرمائی تھی ’’یستحلون الربا بالبیع‘‘ کہ لوگ سود کو تجارت کے نام پر جائز قرار دینے لگیں گے۔
راقم الحروف نے حکومتی سطح پر مختلف اوقات میں سودی نظام کے تحفظ کے لیے اختیار کیے جانے والے تاخیری حربوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور شرکاء کو بتایا کہ مختلف حکومتیں کس طرح سودی نظام کو باقی رکھنے کے لیے دینی حلقوں کو دھوکہ دیتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ اب بھی حکومت نے ایک طرف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں دائر کردہ رٹ واپس لینے کی درخواست دے رکھی ہے اور دوسری طرف وفاقی شرعی عدالت میں اس فیصلہ پر نظرثانی کے لیے بھی درخواست دے دی ہے جس میں سود کی بعض صورتوں کو جائز قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ راقم الحروف نے علماء کرام، خطباء اور دینی مدارس کے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے تفصیلی فیصلے کا اہتمام کے ساتھ مطالعہ کریں اور عوام کو اس سلسلہ میں تمام ضروری تفصیلات سے آگاہ کریں۔ اس فیصلہ کا اردو ترجمہ ’’صدیقی ٹرسٹ، پوسٹ بکس ۶۰۹ کراچی‘‘ نے شائع کیا ہے جہاں سے آسانی سے منگوایا جا سکتا ہے۔
مولانا اکرام الحق خیری نے اپنے خطاب میں سود کے بارے میں بعض علمی سوالات کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ سوال کہ ’’سود تو تجارت ہی کی ایک صورت ہے‘‘ قرآن کریم نے اس دور میں ہی مسترد کر دیا تھا کیونکہ سود کے حق میں اس وقت کی سود خور کمیونٹی نے پہلی دلیل یہی پیش کی تھی مگر قرآن کریم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ سود کا تجارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد چیزیں ہیں جن میں سے تجارت کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔
سیمینار میں یہ طے کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں سود کی رٹ کے حوالہ سے پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے بھی باضابطہ موقف ریکارڈ میں شامل کرایا جائے گا اور سودی نظام کے خلاف رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے مختلف دینی جماعتوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے گا۔
سیمینار سے اگلے روز پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر مولانا اکرم الحق خیری نے ناشتے پر تینوں جماعتوں کے راہنماؤں کو جمع کیا اور پھر شام کو جامع مسجد توحید گلشن حدید کراچی میں مولانا احسان اللہ ہزاروی کی دعوت پر جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں اور پاکستان شریعت کونسل کے راہنماؤں نے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ خطاب کرنے والوں میں مولانا محمد اسعد تھانوی، مولانا حافظ حسین احمد، مولانا اکرام الحق خیری، خواجہ شرف الاسلام ایڈووکیٹ، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا احسان اللہ ہزاروی اور راقم الحروف شامل تھے۔ کراچی کے جماعتی احباب ایک عرصہ کے بعد پرانی اور متحدہ جمعیۃ علماء اسلام کے سرکردہ راہنماؤں کو ایک بار پھر اکٹھا دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر یہ خواہش بار بار جھلک رہی تھی کہ اے کاش جمعیۃ علماء اسلام ایک بار پھر متحد ہو جائے تاکہ علماء حق کی کھوئی ہوئی قوت اور کردار کی بحالی کا کوئی راستہ نکل آئے۔