بنیادوں کی طرف واپسی کا سفر
مغرب ایک طرف عالمِ اسلام کی دینی تحریکات کو ’’بنیاد پرست‘‘ قرار دے کر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہا ہے اور دوسری طرف ’’بنیادیں‘‘ خود اس کی مجبوری اور ضرورت بنتی جا رہی ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم جان میجر نے دو سال قبل ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ (Back to Basics) ’’بنیادوں کی طرف واپسی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور اب:
’’وزیر اعظم جان میجر نے پالیسی ساز اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے خاندانوں کے لیے ۵ بلین پونڈ کا پیکج تیار کریں جن میں مرد کام کرتے ہیں لیکن بیویوں کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہنا پڑتا ہے، منصوبہ کے تحت ایک اسکیم یہ ہے کہ کام نہ کرنے والی خواتین کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنا پرسنل ٹیکس الاؤنس خاوندوں کے نام پر منتقل کریں جس سے انکم ٹیکس میں ۷۳ پونڈ ماہانہ کمی آسکتی ہے۔‘‘ (جنگ لندن ۱۲ جولائی ۹۵ء)
مغربی معاشرہ میں بیویوں کا بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہنے کا تصور اور اسے حق تسلیم کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی بلاشبہ ’’بنیادوں کی طرف واپسی‘‘ کے سفر کا آغاز ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عالمِ اسلام کی دینی تحریکات بھی تو ’’بنیادوں کی طرف واپسی‘‘ کے لیے ہی جدوجہد کر رہی ہیں، ان کی ’’بنیاد پرستی‘‘ قابلِ اعتراض کیوں؟
ڈاکٹر نصر حامد ابو زید کی ہرزہ سرائی اور قاہرہ فیملی کورٹ کا فیصلہ
قاہرہ کی فیملی کورٹ کے حج ڈاکٹر فاروق عبد الحلیم نے قرآن کریم کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے قاہرہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نصر حامد ابو زید کو مرتد قرار دے کر اس کا نکاح فسخ قرار دیا ہے۔ یہ بات رابطہ عالم اسلامی کے جریدہ ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ نے ۷ اگست کی اشاعت میں بتائی ہے۔
’’العالم الاسلامی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر نصر حامد ابو زید نے اپنی متعدد تصانیف میں قرآن کریم کے بارے میں ہرزہ سرائی کی ہے اور اس کے کلامِ الٰہی ہونے سے انکار کے علاوہ قرآن کریم کو نعوذ باللہ خرافات اور داستانوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں ڈاکٹر ابو زید کی مختلف کتابوں کے اقتباسات دیے گئے ہیں، جن کے مطابق اس نے نعوذ باللہ یہ کہا ہے کہ ہمارے زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ
’’ہم نے قرآن کو مقدس کتاب کا درجہ دے دیا اور خرافات کے غلام بن کر رہ گئے‘‘۔
اس نے لکھا ہے کہ
’’ایک کتاب جو ایسے شخص نے لکھی ہے جو صحرا میں رہتا تھا، اونٹ، گھوڑے اور خچر کی سواری کرتا تھا، پندرہ صدیوں کے بعد ان لوگوں کے لیے کیسے قابلِ عمل ہو سکتی ہے جو جہازوں پر سفر کرتے ہیں؟‘‘
اس نے کہا کہ
’’ہم نے عرب عصبیت میں خواہ مخواہ قرآن کو مقدس کتاب کا درجہ دے دیا، اس لیے قوم کو میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کتاب کے تقدس کو ذہن سے نکال دیں اور اسے وہی حیثیت دیں جو عام طور پر کسی کے کلام کی ہوتی ہے۔‘‘
اس بدبخت نے جناب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو ’’ساكن الصحراء‘‘ (صحراء نشین) کے نام سے یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’اگر میری قوم ترقی کے منازل طے کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ (نعوذ باللہ) صحرا نشین کی خرافات سے پیچھا چھڑائے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ابو زید نے جنت، دوزخ اور قیامت سے بھی انکار کیا اور انہیں محض تخیلاتی چیزیں قرار دیا ہے۔ اس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ نعوذ باللہ
’’قرآن اور عقل کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘
اور اس نے یہ بھی (نعوذ باللہ) لکھا ہے کہ
’’اس کتاب نے خرافات اور داستانوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔‘‘
ڈاکٹر ابو زید کی اس ہرزہ سرائی کے خلاف قاہرہ کے علماء اور وکلاء کے ایک گروپ نے فیملی کورٹ سے رجوع کیا اور فیملی کورٹ کے جج ڈاکٹر فاروق عبد الحلیم نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں ڈاکٹر ابو زید کو مرتد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو زید کا نکاح فسخ ہو گیا ہے اور اس کی بیوی ڈاکٹر ابتہال یونس، ارتداد کی وجہ سے، اب اس کی بیوی نہیں رہی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ابتہال یونس بھی قاہرہ یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں۔
ڈاکٹر فاروق عبد الحلیم نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس فیصلہ سے قبل حرم پاک کا سفر کیا اور طوافِ بیت اللہ کے دوران دعاؤں کے علاوہ استخارہ بھی کیا اور اس کے بعد قاہرہ واپس آکر یہ فیصلہ قلمبند کیا۔