گلگت بلتستان میں کشیدگی کا گہرا جائزہ لینے کی ضرورت

   
۶ اپریل ۲۰۱۲ء

شمالی علاقہ جات میں خونریز کارروائیوں کا نیا سلسلہ جہاں انتہائی افسوسناک ہے وہاں مستقبل کے خطرات و خدشات کے لیے الارم کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اور یہ اندازہ کرنا اب مشکل نہیں رہا کہ اس خطہ کو کن مقاصد کے لیے اس قسم کی کارروائیوں کے ذریعے تیار کیا جا رہا ہے اور اس علاقہ کے مستقبل کی نئی نقشہ گری کا تانا بانا بننے والے عناصر شمالی علاقہ جات میں کہاں کہاں اور کون کون سا رنگ بھرنے کے خواہشمند ہیں۔

گلگت بلتستان اور سکردو وغیرہ پر مشتمل یہ خطہ بین الاقوامی نقشوں میں جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقہ کا حصہ ہے اور اس نقشہ میں شامل ہے جس کے عوام کو آزادانہ حقِ خود ارادیت دلانے کے لیے پاکستان ہر عالمی فورم پر سفارت کاری کی جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن اس کے لیے جموں و کشمیر کے بارے میں عمومی پالیسی سے ہٹ کر جو سیاسی پالیسی اختیار کی گئی ہے اس نے مسئلہ کشمیر کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دینے کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے باشندوں کے لیے بھی مشکلات کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ علاقہ عوامی جمہوریہ چین کی سرحد پر واقع ہے جو شاہراہ ریشم پر چین کے لیے مین گیٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس علاقہ میں دیوسائی کا بلند ترین وسیع میدان چین سمیت چاروں طرف کے ممالک پر فضائی بالادستی اور نگرانی کے لیے موزوں ترین میدان سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں چین سے مخاصمت رکھنے اور اس کے گرد گھیرا ڈالنے والی قوتوں کی اس خطے سے دلچسپی بلکہ بیتابی کو سمجھنا کسی بھی باشعور شخص کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اور اس علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں شمالی علاقہ جات کے عوام کے لیے متنازعہ سیاسی حکمت عملی اپنانا اور پھر اس مختلف العقائد آبادی کو آپس میں لڑنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا بلکہ مبینہ طور پر اس باہمی لڑائی کی پشت پناہی کرنا ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور قومی وحدت و سلامتی کے لیے کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے، اس کا صحیح طور پر اندازہ کرنا ملک کے ہر محب وطن شہری کی ذمہ داری ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور یہ محض خدشات و توہمات کے درجے کی بات ہو مگر نظر بہرحال ایسے ہی آرہا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں قومی سیاسی حلقوں کی بے توجہی اور سردمہری کو کم از کم الفاظ میں افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور خاص طور پر کشمیر کے مسئلہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کی بے پروائی اور بھی زیادہ قابل افسوس قرار پاتی ہے۔

گلگت بلتستان میں بسنے والے عوام سنی، شیعہ، اسماعیلی اور نوربخشی عقائد کے حوالہ سے منقسم ہیں اور آبادی کا باہمی تناسب اس قدر حساس اور نازک ہے کہ باہمی تعلقات کا کوئی مستقل اور سب کے لیے قابل قبول نظام طے نہ کیا گیا توعالمی قوتوں کے لیے اس ’’کارڈ‘‘ کے استعمال کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ اس لیے اس علاقہ میں وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی سنی شیعہ فسادات صرف مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی اور علاقائی مسئلہ ہے، ملک کی جغرافیائی حدود کے تحفظ کا مسئلہ ہے، کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے، قومی وحدت و سالمیت کا مسئلہ ہے اور عالمی قوتوں کو اس خطہ میں مداخلت کا موقع فراہم کرنے یا اس سے باز رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اور ان سب پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ہی اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

مسلح کارروائیاں اہل سنت کی طرف سے ہوں یا اہل تشیع کی طرف سے یکساں طور پر قابل مذمت ہیں اور ان کارروائیوں کا شکار ہونے والے لوگ خواہ وہ کسی طرف کے بھی ہوں یکساں ہمدردی اور غمخواری کے مستحق ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں مسلح کارروائیاں کرنے والے نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ بلکہ ان کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ کوئی تیسرا دائرہ ہے جس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تلاش سے زیادہ نشاندہی کی ضرورت ہے جو ہمارے حساس اداروں کے لیے کسی درجہ بھی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹا سا پہلو یہ ہے کہ مجھے آج ہی فون پر اسی علاقے کے ایک صاحب نے بتایا کہ چند روز قبل ہونے والے سانحے میں اور گزشتہ روز کے افسوسناک واقعہ میں فائرنگ کرنے والوں کو مبینہ طور پر پولیس کی وردی میں دیکھا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پولیس تو یہ کارروائی کرنے سے رہی، کچھ لوگوں نے پولیس کی وردی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور انہوں نے دونوں طرف نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے یہ کارروائی کی ہے۔

اس لیے ہماری پہلی گزارش ملک کے قومی سیاسی حلقوں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے لیے کردار رکھنے والی جماعتوں اور شخصیتوں اور اس کے ساتھ ساتھ آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے مشترکہ طور پر یہ ہے کہ اسے صرف مذہبی فرقہ واریت کا معاملہ کہہ کر نظرانداز نہ کیا جائے بلکہ اس وسیع تناظر میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے جس کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔

جناب محمد خان جونیجو مرحوم کی وزارت عظمٰی کے دور میں جب گلگت و بلتستان کو الگ صوبہ کی حیثیت دینے کا سوال سامنے آیا تھا اور جونیجو مرحوم نے اس کے باقاعدہ اعلان کے لیے گلگت کے دورے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا، اس وقت سردار عبد القیوم خان (اللہ انہیں صحت و سلامتی سے نوازیں، آمین) آزاد کشمیر کے وزیراعظم تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام (درخواستی گروپ) کی ہائی کمان نے اس مسئلہ میں دلچسپی لینے کا فیصلہ کیا تھا اور حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ، حضرت مولانا عبد الحکیم ہزارویؒ اور راقم الحروف پر مشتمل ایک وفد نے اسلام آباد کے آزاد کشمیر ہاؤس میں سردار عبد القیوم خان سے ملاقات کر کے انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا،ان سے اتفاق کرتے ہوئے سردار صاحب محترم نے وفاقی حکومت سے بات کی تھی اور معاملہ سنبھل گیا تھا۔ سردار صاحب اب صاحب فراش ہیں اور شاید کوئی عملی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں مگر ان کے فرزند سردار عتیق احمد خان اور ان کی جماعت مسلم کانفرنس تو آج بھی اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، اگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سرکردہ علماء کرام کا ایک وفد ان سے مل کر انہیں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ کر سکے تو میرے خیال میں بات صحیح رخ پر آگے بڑھ سکتی ہے اور راہنمائی کے لیے سردار محمد عبد القیوم خان کی شخصیت تو ان کے پاس موجود ہی ہے۔

جہاں تک سنی شیعہ تنازع کا تعلق ہے میرے نزدیک اسے اب ہلکے پھلکے انداز میں لینے کا وقت نہیں رہا، معاملات بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ میری طالبعلمانہ رائے میں مشرق وسطٰی میں سنی شیعہ بنیاد پر آگے بڑھنے والی سیاست اور مستقبل میں اس حوالے سے نظر آنے والی کشمکش کو پاکستان کی سنی شیعہ کشمکش سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں مسلسل گرم ہوتا ہوا ماحول بھی اس سے الگ نہیں ہے۔ اس سارے تناظر کو پوری گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں پہلی درخواست تو ہم مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق سے کرنا چاہیں گے کہ وہ اس مسئلہ کو نظرانداز نہ کریں بلکہ اپنی جدوجہد یا کم از کم غوروفکر کے دائرہ میں اسے ضرور شامل کریں۔ دوسری درخواست سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور شخصیات سے ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل کے دائرہ کو وسعت دیں اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلہ میں محنت کرنے والی دیوبندی جماعتیں فوری طور پر مل بیٹھنے کا اہتمام کریں اور مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کریں، بلکہ بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے راہنماؤں کو اعتماد میں لینے کی کوئی صورت بھی ضرور نکالیں۔ خدا جانے ہماری یہ بات بہت سے دوستوں کے ذہنوں تک رسائی پانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہی کہ صرف مسلکی بنیاد پر ہم قادیانیوں کے خلاف جدوجہد میں بھی آگے نہیں بڑھ سکے تھے، اور تعلیم یافتہ طبقہ حتٰی کہ اہل تشیع کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا پڑا تھا بلکہ عالمی سطح پر سعودی عرب، مصر، انڈیا اور دوسرے ممالک کی دینی قیادتوں کو اعتماد میں لے کر اور ملک کی سیاسی جماعتوں کو جدوجہد میں شریک کر کے ہی ہم اپنی جدوجہد کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کر پائے تھے۔ اس لیے سنی محاذ پر بھی صرف مسلکی جدوجہد اور وہ بھی اپنی سیاسی قیادت اور فکری و علمی حلقوں کو اعتماد میں لیے بغیر اس جدوجہد میں کوئی عملی پیشرفت آخر کیسے ممکن ہے؟

حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ آف اسلام آباد کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے اس سلسلہ میں ایک وسیع تر مشاورت ہوئی تھی جس کے لیے علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا اور اس تجویز پر بات ہوئی تھی کہ مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور راقم الحروف مشترکہ طور پر پہلے مرحلہ میں اپنی ہم مسلک ایسی شخصیات سے رابطہ کریں جو سنی شیعہ مسئلہ سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ اس کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ ایسی چیدہ چیدہ شخصیات کی باہمی مشاورت کا اہتمام کر کے پوری صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور اس سلسلہ میں اہل حق کے کردار اور طریق کار کو منظم کرنے کی کوئی عملی صورت نکالی جائے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہؒ کی شہادت سے ہفتہ عشرہ قبل جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں منعقد ہونے والے پاکستان شریعت کونسل کے ایک اجلاس میں مولانا محمد عبد اللہؒ اور مولانا قاری سعید الرحمانؒ سے اس مسئلہ پر تفصیلی بات ہوئی تھی اور مولانا چنیوٹیؒ بھی اس کے لیے آمادگی کا اظہار کر چکے تھے مگر چند روز بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہؒ کی المناک شہادت کے باعث یہ مشاورت دم توڑ گئی۔ آج کے معاملات میں اس قسم کی مشاورت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر میری صورتحال یہ ہے کہ کوئی عملی کردار ادا کرنے اور وقت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، کوئی صاحب خیر آگے بڑھیں تو مشاورت کے درجے میں معاونت کے ساتھ قلم کا تعاون کھلے دل سے حاضر ہوگا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter