بخاری شریف میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گُھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’تو اور کون ہے‘؟
اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے جس طرح توراۃ، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم و دانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔ چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لیے بیسیوں گروہ آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نت نئے معانی پہنانے کی کوشش کی اور یہود و نصارٰی کی یاد تازہ کر دی۔ البتہ قرآن و سنت کے الفاظ میں ردوبدل کی سہولت انہیں کبھی حاصل نہیں رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اس کے ساتھ اس کی عملی تشریح کے طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنے کا اہتمام کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کا سارا زور معنوی تحریف پر صرف ہوتا چلا آ رہا ہے اور علامہ اقبالؒ کے بقول ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق قرآنی تعلیمات ایسے گروہوں کی تحریفی تلبیسات کا مسلسل شکار ہوتی چلی آرہی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی غالب اکثریت اور اجتماعی دھارے نے اپنے لیے ’’اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘ کا ٹائٹل اختیار کر کے اس تحریف و تلبیس کے راستے میں بھی مضبوط اور ناقابل شکست دیوار کھڑی کر رکھی ہے کہ سنتِ رسولؐ اور جماعت صحابہؓ کو دین کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کر لینے کے بعد کسی ایسی تحریف و تلبیس کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتا جس پر چل کر یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن و سنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیر و تشریح کا جامہ پہنایا جا سکے۔ البتہ یہ کشمکش مسلسل جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتی رہے گی۔
اس پس منظر میں ہمارے’’ تجدد پسند‘‘ دانشوروں کی فکری و علمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے جس کا ہم آج کی محفل میں مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علماء نے، جن میں جرمن مسیحی راہنما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیر و تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا۔ اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیر و تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔
ہمارے بعض دانشور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کر سکتے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کر کے اس کی نفی کریں اور مارٹن لوتھر کی طرح قرآن و سنت کی نئی تعبیر و تشریح کی بنیاد رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی’’ قدم بہ قدم‘‘ پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن و سنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات ۱۵۴۶ء عیسوی میں ہوئی جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کا سن ۱۵۴۲ء عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکا تھا۔
اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علماء اور دانشوروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس کی تعبیر و تشریح پرانی ہو گئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ’’مجتہد مطلق‘‘ سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیر و تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیا جائے۔ چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علمائے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیر و تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات و تشریحات کی طرح ’’ری کنسٹرکشن‘‘ قرار دیا جا سکے۔ چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبد القادر بدایونی نے ’’منتخب التوریخ‘‘ میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علمائے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے۔ اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا وہ ملا عبداللہ سلطان پوریؒ اور ملا عبد النبی گنگوہیؒ کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ’’مجتہد مطلق‘‘ قرار دینے کا محضر نامہ ملا عبد القادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ:
’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اور علم والے ہیں۔ اس بنیاد پر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اور اجماعی قرار پائے گا اور رعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی و ناگزیر ہوگی۔‘‘
اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم و دانش کی معاونت و مشارکت سے اسلام کی جو ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسلامی احکام و قوانین کو تقلید و جمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبد القادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:
- سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی۔
- بادشاہ کو سجدہ کیا جاتا تھا۔
- کلمہ طیبہ میں ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ساتھ ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہنا لازمی کر دیا گیا تھا۔
- بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیا جاتا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش، رغبت اور دلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرتا ہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتا ہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس و عزت اور ترک دین کو قبول کرتا ہوں۔‘‘
- بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا اور دوسرا جواب میں ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یہی ان کا سلام و جواب ہوتا تھا۔
- خط کے آغاز میں ’’اللہ اکبر‘‘ لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔
- سود اور جوئے کو حلال قرار دیا گیا، شاہی دربار میں جوا گھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔
- شراب کی محفلوں میں فقہائے کرام کا مذاق اڑایا جاتا۔ اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتا کہ یہ پیالہ میں فقہاء کے ’’اندھے پن‘‘ کے نام پر پیتا ہوں۔
- ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا گیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔
- غسل جنابت کو منسوخ کر دیا گیا۔
- ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیا گیا۔
- سولہ سال سے کم عمر لڑکے اور چودہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح ممنوع قرار دیا گیا۔
- حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ و بازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیں یا چہرے کو اس وقت کھول دیا کریں۔
- زنا کو قانوناً جائز قرار دیا گیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے۔
- بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قرار دیا گیا۔
- مردہ کو دفن کرنے کے بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیا جائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیا جائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیا جائے۔
- سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قرار دیا گیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔
- شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کر دیا گیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قرار دیا گیا۔
- حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہو کر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً و قہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے۔
- یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کر دی جائے اور نجوم، طب، حساب اور فلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اور حدیث پڑھنے والے مردود و مطعون ٹھہرائے گئے۔ ملا عبد القادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کر رہی ہے۔
- ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کر دیا۔
- ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتا ہے اور راز و نیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتا ہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتا ہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔
- احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ’رحمت‘ ہی کے نام سے پکارتا تھا۔
- علمائے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔
- نماز، روزہ اور حج ساقط ہوچکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز ادا کر سکے۔
- نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام ’’تقلیدات ‘‘رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔
- اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔
- جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردود اور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ’’فقیہ ‘‘رکھ دیا جاتا تھا۔
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسباب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیر و تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت اور تعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا۔ پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم و جبر کی تکون قائم کر دی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قرار دیا۔ بادشاہ اور جاگیر دار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم و جبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیر و تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اور علم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کر کے پاپائیت کی نفی کر دی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیر و تشریح کی اساس بنی۔ مغرب کی معروضی صورتحال ایسی ہی تھی اور مغرب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یا نہیں اور ہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیل نو کی ہے اور مسیحیت کی تعبیر و تشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کر دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اور جیسا کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کر لیا جائے، ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی۔ ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیر و تشریح میں فقہاء کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبرؓ نے شخصیت کے بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابوبکر صدیق کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔
پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابوحنیفہؒؒ نے کہی ہے یا امام شافعیؒ نے کہی ہے یا امام مالکؒ نے کہی ہے یا امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتا ہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہؒ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعیؒ کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتا ہے کہ ان کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔
جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کر رہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قرار دینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں، اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد ان کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ارشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟
اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے لیے اس کی تعبیر و تشریح کے پرانے فریم ورک کو چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ مارٹن لوتھر نے ایسا ہی کیا تھا جبکہ دین کی تعبیر و تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اور گنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جا سکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرون مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم و جبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم و جبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیر و تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جا سکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر ،عوام کے حقوق کی خاطر، اور ظلم و جبر کے خلاف ہر دو ر میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم و جبر کا حوصلہ و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ اس لیے دین کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد و تقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قرار دینے پر مصر ہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے روایتی نظام اور فریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کر کے دین کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، اور ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہم اس پر اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ سرِدست جناب نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں کہ ’’تم یہود و نصاریٰ کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے‘‘ اس کے صرف ایک پہلو کی طرف ہم قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں کہ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیر نو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اور ہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیا تھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصور کیا جا رہا ہے۔ کیا ’’قدم بہ قدم پیروی‘‘ کی اس سے بہتر کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟