دیوبندیت کا عالمی تعارف

   
جامعہ رشیدیہ، ساہیوال
۲۰ اپریل ۲۰۱۴ء

(سالانہ تقریب ختم بخاری شریف سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ابھی ہمارے مخدوم و محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم جامعہ رشیدیہ کے دورۂ حدیث کے طلبہ کو بخاری شریف کا آخری سبق پڑھائیں گے، ان سے قبل مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چونکہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں کھڑا ہوں اس لیے اسی مناسبت سے چند معروضات پیش کروں گا۔

جامعہ رشیدیہ کو پاکستان میں دیوبندیت کے تعارف اور فروغ کی جدوجہد میں اہم مقام حاصل ہے اور ہم نے طالب علمی کے دور میں جن مراکز سے دیوبندیت کا سبق لیا ہے جامعہ رشیدیہ بھی ان میں سے ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مسائل کی علمی تحقیق و وضاحت کے حوالہ سے حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو دیوبندیت کی علمی ترجمانی کا مقام حاصل ہوا اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ ان کا مرکز تھا، جبکہ دیوبندیت کے تحریکی اور تاریخی پس منظر اور مقام سے نئی نسل کو روشناس کرانے میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال نے اہم کردار ادا کیا۔ حضرت مولانا فقیر اللہؒ، حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہؒ، حضرت مولانا قاری لطف اللہ شہیدؒ اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدیؒ نے ساہیوال میں ڈیرہ لگایا اور اہل پاکستان کو دیوبندیت سے متعارف کرانے کا مشن سنبھال لیا، حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدیؒ کا کردار اس میں کلیدی ہے اور اس میں انہیں ہمارے بزرگ دوست مولانا حافظ عبد الرشید ارشدؒ کا تعاون حاصل تھا۔ مجھے مولانا فقیر اللہؒ اور مولانا قاری لطف اللہ شہیدؒ کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہو سکا البتہ حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہؒ کی زیارت اور ان کی مجالس کی سعادت سے بہرہ ور ہوا ہوں۔ حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدیؒ کے ساتھ متعدد دینی تحریکات و اجتماعات میں نیاز مندانہ رفاقت رہی ہے اور حافظ عبد الرشید ارشدؒ میرے بے تکلف بزرگ دوستوں میں سے تھے۔ اس پس منظر میں جی چاہتا ہے کہ جامعہ رشیدیہ میں حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدیؒ کے اسٹیج پر کھڑا ہوں تو دیوبندیت ہی کی باتیں کروں، تفصیل سے تو بات نہیں کر سکوں گا کہ وقت کا دامن تنگ ہے مگر چند جھلکیاں ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں عسکری ناکامی کے بعد جب ہمارا سب کچھ لٹ گیا اور ملک کا تعلیمی، دفتری، عدالتی اور معاشرتی نظام یکسر تبدیل ہو گیا تو ہمارے بزرگوں نے ۱۸۶۶ء میں دیوبند کے قصبے میں زیرو پوائنٹ سے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔ مدرسہ عربیہ دیوبند جو بعد میں دار العلوم دیوبند کے نام سے متعارف ہوا کس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا؟ اسے اگر سمجھنا ہو تو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کو سمجھنا ہو گا۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ دیوبندیت کو اگر کسی شخصیت کے حوالہ سے پہچاننا ہو تو اس کے لیے حضرت شیخ الہندؒ واحد موزوں شخصیت ہیں جو دیوبند کے مدرسہ کے پہلے طالب علم ہیں اور عالمی سطح پر دیوبندیت کی پہچان اور تعارف بھی ہیں۔

مولانا مناظر احسن گیلانیؒ حضرت شیخ الہندؒ کے چہیتے شاگردوں میں سے تھے، وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے اور آزادی کی جدوجہد کے لیے ان کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی تھیں جس سے دار العلوم کے انتظامی معاملات کے متاثر ہونے کے خدشات جنم لینے لگے تو چند ذمہ دار بزرگوں نے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ سے کہا کہ وہ حضرت شیخ الہندؒ سے ان کا عندیہ معلوم کریں کہ وہ اس معاملہ میں کہاں تک آگے جانا چاہتے ہیں؟ مولانا گیلانیؒ نے حضرت شیخ الہندؒ سے بات کی تو انہوں نے فرمایا کہ تعلیم و تعلم کا کام جو لوگ کر رہے ہیں میں ان کے کام سے حارج نہیں ہونا چاہتا مگر اب میں نے خود کو اس مقصد کے لیے فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے لیے استاذ محترم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے یہ مدرسہ قائم کیا تھا، اور وہ مقصد ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی تلافی تھا۔ ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی تلافی کا عنوان اس قدر جامع ہے کہ اس میں سیاسی، تعلیمی، معاشی، عسکری، معاشرتی، تہذیبی اور انتظامی سب ہی شعبے سمٹ آتے ہیں اور حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی کا یہی سب سے بڑا مشن تھا۔ میں اس کی تفصیلات میں جانے کی بجائے آج کی عالمی صورتحال میں دو شہادتیں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے بھی دیوبند کو اسی تناظر میں دیکھا اور سمجھا ہے اور میرے نزدیک دیوبندیت کا صحیح تعارف یہی ہے۔

چند سال قبل برطانیہ کے ایک معروف اخبار ’’دی انڈیپینڈنٹ‘‘ نے ایک فیچر لکھا جس میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ مغرب جس بات کو ’’شر‘‘ قرار دے کر اسے ختم کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے ہوئے ہے، اس شر کے فروغ کے مراکز کون سے ہیں؟ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب کے نزدیک شر یہ ہے کہ سوسائٹی کی خواہشات کو آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کا پابند قرار دیا جائے، اور آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو جانے اور انسانی خواہشات کی پیروی کو مغرب نے روشن خیالی قرار دے لیا ہے۔ جبکہ اسلام کا موقف اس سے بالکل متضاد ہے اور قرآن کریم نے ’’خیر‘‘ اسے قرار دیا ہے کہ انسانی سوسائٹی کو خواہشات کی پیروی (ولا تتبع اہواء ہم) سے نکال کر وحی الٰہی کی پابندی کی طرف لایا جائے اور سورۃ ابراہیم کے آغاز میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور ویہدیہم الی صراط العزیز الحمید‘‘۔ اس وجہ سے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جو بات ہمارے نزدیک خیر ہے وہ مغرب کے ہاں شر شمار ہوتی ہے، اور جسے مغرب خیر کہتا ہے وہ ہمارے نزدیک سراسر شر ہے، اس لیے فکری اور تہذیبی محاذ پر ہمارا اور مغرب کا سمجھوتا ممکن ہی نہیں ہے۔

اس پس منظر میں مغرب کے دانشور جب شر کی اصطلاح کہتے ہیں تو اس سے ان کی مراد انسانی سوسائٹی کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ تعلق جوڑنا اور انسانوں کو خواہشات کی پیروی سے نکال کر وحی الٰہی کی پابندی کا راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں اس لیے وہ مغرب کی سیکولر لابیوں کا سب سے بڑا نشانہ ہیں، چنانچہ دی اِنڈیپینڈنٹ نے مذکورہ فیچر میں اپنے تجزیہ کا نتیجہ یہ پیش کیا کہ جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اس شر کے فروغ کے مراکز ہیں اور فیچر کی پیشانی پر دو تصویریں شائع کیں کہ یہ شر کے ان مراکز کے بڑے سر چشمے ہیں۔ ایک تصویر دار العلوم دیوبند کے دار الحدیث کی ہے اور دوسری بستی نظام الدینؒ دہلی کے تبلیغی مرکز کی ہے۔ ہمارے بہت سے دوستوں نے برطانوی اخبار کے اس فیچر پر ناراضگی کا اظہار کیا جبکہ میں نے ان دنوں برمنگھم برطانیہ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس فیچر پر مذکورہ اخبار کا شکریہ ادا کیا کہ میرے نزدیک یہ فرد جرم نہیں بلکہ تاریخ کا اعتراف ہے کہ مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اس کے مقابلے میں سب سے بڑا مورچہ کون سا ہے؟

میں آپ حضرات کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال کے بارے برطانیہ سی آئی ڈی کی رپورٹوں کو مرتب کر کے حضرت مولانا سید محمد میاںؒ نے تحریک شیخ الہندؒ کے نام سے شائع کیا تو پاکستان میں اس کی اشاعت کا اعزاز حافظ عبد الرشید ارشدؒ کے مکتبہ رشیدیہ نے حاصل کیا تھا۔ اور اب تحریک شیخ الہندؒ کے بارے میں جرمنی کے خفیہ اداروں کی رپورٹیں بھی ’’برلن پلان‘‘ کے نام سے جرمن زبان میں مرتب ہو چکی ہیں جو جرمنی کی وزارت خارجہ کے ایک سابقہ افسر ڈاکٹر رولف شمل نے مقالہ کی صورت میں پیش کی ہیں۔ لیکن میں ایک اور جرمن دانشور کی تحقیقی کاوش کا ذکر کرنا چاہوں گا جس نے ابھی دو سال قبل اسی بات کو تحقیق کا موضوع بنایا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد جنوبی ایشیا میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کے عنوان سے جو نئی تقسیم سامنے آئی تھی ان میں سے کون سے گروہ نے ایشیائی نسلوں کی حدود کو کراس کر کے بین الاقوامیت اختیار کی ہے؟ اس کا کہنا ہے کہ ان مسالک میں سے صرف دیوبندیت نے بین الاقوامی تعارف حاصل کیا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کی کتاب ’’فضائل اعمال‘‘ ہے۔ آج دیوبندیت عالمی سطح پر بحث و تمحیص کا موضوع ہے اور اس کے دنیا پر علمی و فکری اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے تو اس میں یقینًا جامعہ رشیدیہ کا بھی حصہ اور اس میں ’’رشیدی قافلہ‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وقت کم ہونے کے باعث آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔

2016ء سے
Flag Counter