عوامی احتجاج اور ہمارا معاشرتی رویہ

   
تاریخ : 
۲۶ ستمبر ۲۰۱۲ء

ایک فارسی محاورہ ہے کہ ’’عدو شرے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد‘‘ یعنی بسا اوقات دشمن شر کو ابھارتا ہے اور اس میں ہمارے لیے خیر کا پہلو نکل آتا ہے۔ کچھ اس قسم کی صورتحال مذموم امریکی فلم کے حوالہ سے سامنے آرہی ہے کہ عالم اسلام ایک بار پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کے مسئلہ پر متحد ہوتا نظر آرہا ہے، بلکہ اس بار ایک اور تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ وہ بات جو ہم فقیر کیا کرتے تھے اب ہمارے حکمرانوں کی زبانوں پر آنے لگی ہے کہ توہین رسالت کو عالمی سطح پر جرم قرار دیا جائے اور اس کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی عدالت میں قانون سازی کی جائے۔ حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق گزشتہ جمعۃ المبارک کو پورے ملک میں ’’یوم عشق رسول‘‘ منایا گیا ، پوری قوم نے متحد ہو کر اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت میں یکجہتی کا اظہار کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم بحیثیت قوم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے بیدار اور متحد ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سب جماعتوں اور قوم کے ہر طبقہ نے اس میں اپنا حصہ دل کھول کر ڈالا حتٰی کہ غیر مسلم اقلیتوں کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے بھی کھلے طور پر کہا گیا کہ وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو جرم سمجھتے ہیں اور شرمناک امریکی فلم کی مذمت میں پاکستانی قوم کے ساتھ ہیں۔

ملک بھر میں عوامی مظاہرے ہوئے اور قوم سڑکوں پر آئی تو اس میں کچھ افسوسناک واقعات بھی ہوئے کہ تشدد اور توڑپھوڑ کے ساتھ ساتھ چند قیمتی جانیں ان مظاہروں کی نذر ہوگئیں، اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا اور ہر باشعور شہری نے اس قسم کے رویہ اور واقعات سے نفرت کا اظہار کیا ہے لیکن اس سلسلہ میں دو تین باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

  1. ایک یہ کہ بدقسمتی سے اس قسم کا رویہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے اور صرف مذہبی معاملات میں نہیں بلکہ کسی بھی حوالے سے عوام سڑکوں پر آتے ہیں تو اس طرح کی توڑپھوڑ اور بداَمنی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ یوم عشق رسول کے موقع پر ایک دانشور نے مجھ سے فون پر بات کی جو مذہب کے کسی بھی حوالے سے عوامی جذبات کے اظہار کے حوالہ سے اکثر اپنے تحفظات پر مجھ سے بات کرتے رہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ توڑپھوڑ اور تشدد کے واقعات افسوسناک ہیں مگر جناب نبی اکرمؐ کی حرمت و ناموس کے لیے عوام کا سڑکوں پر آنا ان کا حق ہے اور مسلمانوں کے ایمان کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا مذہب یہی سکھاتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویہ سے ہے، یہ ہمارا معاشرتی مزاج بن گیا ہے کہ ہم جس مسئلہ پر بھی احتجاج کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں اس قسم کی توڑپھوڑ اور بداَمنی کے مظاہرے ضرور ہو جاتے ہیں، اس لیے اس توڑپھوڑ اور لاقانونیت کو مذہب کے حوالے سے نہیں بلکہ معاشرتی رویے کے حوالے سے دیکھا جائے اور اپنے معاشرتی مزاج کی اصلاح کے لیے محنت کی جائے۔
  2. دوسری بات یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہماری رولنگ کلاس اور حکمران طبقے کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ جب تک اس قسم کا ہلاگلا نہ ہو قوم کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی، کیونکہ وہ سڑکوں پر کسی بھی مسئلہ کے لیے آنے والے عوام کی بات پر صرف اس وقت توجہ دیتے ہیں جب لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، پولیس حرکت میں آتی ہے اور تصادم کی فضا بنتی ہے، پھر اعلٰی حکام کے ذہن میں بات آتی ہے کہ یہ مسئلہ اب حد سے بڑھ رہا ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ عوام اپنے حکمرانوں کا مزاج جانتے ہیں کہ عام اور نارمل انداز میں کہی گئی بات اور جمہوری طریقے سے کیے گئے کسی پر امن مظاہرے سے ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اس لیے وہ ارباب اقتدار کو متوجہ کرنے کے لیے بھی بسا اوقات اس قسم کی حرکتیں کر گزرتے ہیں جو اگرچہ افسوسناک ہوتی ہیں لیکن تحریکی مقاصد کے لیے کچھ لوگوں کے نزدیک شاید ضروری ہو جاتی ہیں۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ اس قسم کے عوامی مظاہروں سے فائدہ اٹھانے میں شرپسند عناصر بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔میں ذاتی طور پر گزشتہ نصف صدی سے مختلف تحریکات میں شریک چلا آرہا ہوں، ان میں سیاسی تحریکیں بھی ہیں اور مذہبی تحریکیں بھی ہیں۔ کم و بیش ایک درجن کے لگ بھگ تحریکوں میں کام کرنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔ ملک میں تحریکات کے امام نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی ٹیم کے ایک متحرک رکن کے طور پر بعض تحریکات میں شریک رہا ہوں۔ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عوامی تحریکات اور مظاہروں کو شرپسند اور خفیہ عناصر کی دخل اندازی سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ تشدد اور توڑپھوڑ کی وجہ سے تحریکیں اکثر ناکام ہو جایا کرتی ہیں۔ اور جو لوگ تحریکات کو ناکام بنانے کے درپے ہوتے ہیں ان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ عوامی مظاہروں میں کچھ لوگوں کو شامل کر کے ان کے ذریعے پرجوش عوام کا رخ تشدد اور توڑپھوڑ کی طرف موڑ دیا جائے۔ لیکن گزشتہ نصف صدی کے تجربہ کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ تمام تر اقدامات اور احتیاط کے باوجود عوامی تحریک میں تشدد کے عناصر کو شامل ہونے سے روکنے کی کوشش بعض اوقات کامیاب نہیں ہو پاتی جس کے اسباب کا میں سطور بالا میں تذکرہ کر چکا ہوں۔

بہرحال افسوس کے اس پہلو کے باوجود قوم نے جس محبت اور عقیدت کے ساتھ آنحضرتؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہ خوش آئند ہے جس پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ البتہ مجھے دو باتوں پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی ہے:

  • ایک یہ کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اس موقع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے بارے میں لب کشائی یہودیوں کے جذبات کو مجروح کرتی ہے اور اس بنا پر اسے جرم سمجھا جاتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت کے بارے میں لب کشائی دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتی ہے، اسے بھی عالمی سطح پر جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
  • اور دوسری بات یہ کہ اخباری اطلاعات کے مطابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اس مسئلہ کو بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی صدر محترم اور وزیراعظم کے ان ارادوں کو قبولیت و ثمرات سے نوازیں اور ان کی اس آواز کو بین الاقوامی فورم پر جناب نبی اکرمؐ بلکہ تمام انبیاء کرامؑ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔
   
2016ء سے
Flag Counter