تین سال قبل رہائش کی تبدیلی کے بعد سے معمول ہے کہ نماز فجر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں پڑھاتا ہوں اور اس کے بعد بخاری شریف کا مختصر درس ہوتا ہے، جبکہ اس سے قبل مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تقریباً چالیس برس تک نماز فجر پڑھانے اور اس کے بعد قرآن و حدیث کا درس دینے کی سعادت حاصل رہی ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ آج کے درس میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت گفتگو کا موضوع تھی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جب اسلام کی بیعت لی تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ’’والنصح لکل مسلم‘‘ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرو گے۔ اس کی وضاحت میں ایک اور حدیث نبویؐ کا تذکرہ کیا جس میں جناب رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’الدین النصیحۃ‘‘ دین نصیحت اور خیر خواہی کا ہی نام ہے۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے لیے، اللہ تعالٰی کے رسول کے لیے، مسلم حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ اس کی تشریح میں عرض کیا کہ:
- اللہ تعالٰی کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کی بندگی کی جائے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کیا جائے۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نصیحت یہ ہے کہ ایمان و محبت کے ساتھ آپؐ کی اطاعت اور اتباع کی جائے۔
- مسلم حکمرانوں کے لیے خیر خواہی اور نصیحت یہ ہے کہ ان کے احکام کو مانا جائے اور ان کی غلطیوں سے ان کو آگاہ کیا جائے۔
- جبکہ عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ ہر حالت میں ان کا نفع اور بھلا سوچا جائے اور انہیں دنیا و آخرت کے ہر نقصان سے بچانے کی فکر کی جائے۔
درس سے فارغ ہو کر جب اخبار پر نظر ڈالی تو وزیراعظم جناب عمران خان کا یہ خطاب شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے تھا کہ کچھ لوگ ریاست سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ورنہ ریاست ایکشن لینے پر مجبور ہو گی۔ خیال ہوا کہ اسی نصیحت اور خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں ان کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کر دی جائیں۔
اس وقت ملک بھر میں احتجاج و اضطراب کی جو ہمہ گیر لہر جاری ہے وہ آسیہ کیس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے حوالہ سے ہے جس میں آسیہ کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا گیا ہے اور عام لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جسے سیشن کورٹ سے ہائیکورٹ تک تمام عدالتیں مجرم قرار دے چکی ہیں وہ ’’شک کے ایک قانونی نکتہ‘‘ پر اچانک بری کیسے ہوگئی؟ جبکہ وزیراعظم محترم نے عوام الناس کو سمجھانے کا کوئی مناسب راستہ اختیار کرنے کی بجائے ’’دھمکیوں‘‘ کی وہی زبان استعمال کرنا شروع کر دی ہے جو ان کے عوامی دھرنوں اور مظاہروں کے دوران اس وقت کے حکمران ان کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے۔
جہاں تک فیصلہ کے قانونی نکات کی بات ہے اس پر تو قانونی ماہرین ہی بہتر طور پر اظہار رائے کر سکتے ہیں اور ہمارے خیال میں ملک کے ممتاز ماہرین قانون کو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ مگر فیصلہ کے بعد سے اب تک سوشل میڈیا پر اس حوالہ سے بحث و مباحثہ کا ماحول دیکھ کر ہمیں کچھ زیادہ تعجب نہیں ہوا کہ سیکولر دانشور اور ان کے ہمنوا حلقے کس ’’مہارت‘‘ کے ساتھ قلابازیاں کھا رہے ہیں اور یہ تکنیک ان کا معمول بنتی جا رہی ہے کہ جب قرآن کریم کے کسی صریح حکم پر عملدرآمد کی بات کی جائے تو وہ معاشرتی تقاضوں اور سماجی ضروریات کی ڈھال ہاتھ میں لے کر دہائی دینا شروع کر دیتے ہیں کہ موجودہ وقت کا سماجی ماحول اور معاشرتی تقاضے اس کے متحمل نہیں ہیں، لیکن جب ان سے مسلمانوں کے معاشرتی ماحول اور سماجی نفسیات کی کوئی بات کہی جائے تو وہ قانونی موشگافیوں اور شریعت کی من مانی تعبیرات کی اوٹ میں چلے جاتے ہیں، اور یہ بات اس طرح محسوس ہونے لگی ہے کہ ان کے نزدیک سماج اور معاشرت صرف وہی ہے جو مغرب میں ہے، جبکہ مسلمانوں کا معاشرتی ماحول اور سماجی تقاضے ان کے خیال میں کسی اہمیت کے مستحق نہیں ہیں۔
بہرحال اس تناظر میں ہم محترم وزیراعظم سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ:
- وہ دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے کی بجائے لوگوں کو دلیل اور منطق کے ساتھ سمجھانے کا کوئی طریقہ اختیار کریں جس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے اپیل کی گنجائش موجود ہےتو حکومت خود یہ اپیل دائر کرے اور اس کیس کے شرعی، قانونی، سماجی اور معاشرتی تقاضوں پر ایک بار پھر وسیع تناظر میں بحث و مباحثہ کا اہتمام کرے۔
- محترم عمران خان کو شکوہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین اس مسئلہ کو ایشو بنا رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ہاتھ میں اتنا بڑا ہتھیار کیوں دے رہے ہیں اور خود اسے حل کرنے کی طرف پیشرفت کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ بطور وزیراعظم یہ ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
- وزیراعظم محترم نے ریاست کی رٹ کی بات کی ہے جو بالکل درست ہے، ہم خود بھی ریاست کی رٹ کو کسی بھی حوالہ سے چھیڑنے کے خلاف ہیں اور ہمارے خیال میں کوئی اسے چھیڑ بھی نہیں رہا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پر اَمن احتجاج ہر شہری کا حق ہے جسے مختلف حلقے استعمال کر رہے ہیں۔ البتہ وزیراعظم محترم چونکہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کی بات کیا کرتے ہیں جو ہمیں بہت اچھی لگتی ہے اس لیے ان کی اطلاع کے لیے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب ’’ریاست مدینہ‘‘ کی حکمرانی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سنبھالی تھی تو اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر میں بطور حکمران اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر میں اس سے ہٹ جاؤں تو تم میرے پابند نہیں ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں رعایا اور ریاست کے درمیان وفاداری اور کمٹمنٹ کی بنیاد قرآن و سنت تھی، اس لیے مسلم ریاست کو رعایا سے اطاعت کا تقاضہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ ریاست و حکومت کا جائز حق ہے لیکن قرآن و سنت کے احکام کے حوالہ سے خود حکومت کی بھی کوئی ذمہ داری ہے جو دستور پاکستان میں واضح ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل نے ان تمام مروجہ قوانین کی نشاندہی کر رکھی ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں تبدیلی اور اصلاح کے محتاج ہیں۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے اور دو طرفہ ہی چلے گا تو بات آگے بڑھے گی اس لیے کہ ’’تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے‘‘ جبکہ ایک ہاتھ سے بجنے والا تھپڑ ہوتا ہے، آخر یہ قوم کب تک تھپڑ کھاتی رہے گی؟