پرنسس آف ویلز شہزادی ڈیانا کی حادثاتی موت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مسلسل لکھا جا رہا ہے۔ اصحابِ قلم اپنے اپنے ذوق اور زاویۂ نگاہ سے شہزادی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں اور اربابِ دانش لیڈی ڈیانا کو حادثاتی موت کے بعد عالمی سطح پر ملنے والی پذیرائی کے اسباب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ نے ڈیانا کی موت کو جو اہمیت دی ہے وہ اس سے قبل کسی شخصیت کو نہیں ملی، اور اس بات سے انکار بھی مشکل ہے کہ ڈیانا کی آخری رسوم میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پذیرائی کے اسباب کی نشاندہی گفتگو کا ایک مستقل عنوان اختیار کر گئی ہے اور اس حوالے سے مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی پریس اور اس کے یہودی اجارہ داروں نے یہ صورتحال جان بوجھ کر پیدا کی ہے اور مشرقی ممالک اور اسلامی دنیا کے خلاف مغرب کی ثقافتی جنگ میں یہ ہتھیار بہت کامیابی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے، جس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو لیڈی ڈیانا مغرب کے ’’آزاد معاشرے‘‘ کی آزاد روی کا ایک مکمل نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایک ایسی خاتون جسے شاہی خاندان کا فرد نہ ہونے کے باوجود شاہی خاندان میں شامل ہونے کا موقع ملا، ولی عہد کے ساتھ اس کی شادی ہوئی اور اسے مکمل طور پر شہزادی کا پروٹوکول حاصل ہوا، مگر شادی کامیابی کی منزل سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ میاں اپنے معاشقوں میں الجھا رہا، بیوی نے اپنے معاشقوں کی الگ دنیا بسائی، دونوں ایک دوسرے کو مطمئن نہ رکھ سکے، طلاق تک نوبت پہنچی، مگر قانونی علیحدگی کے باوجود دونوں خاندانی تعلق کی ڈور سے بندھے رہے۔ دونوں سکون کی تلاش میں ادھر ادھر منہ مارتے رہے لیکن سکون کی دولت کہیں سے حاصل نہ ہوئی۔ شہزادی نے سکون کی تلاش کا دائرہ ذرا زیادہ وسیع کر دیا، نئی نئی دوستیاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں آگے نکل گئی اور انسانی ہمدردی اور خدمات میں ذہنی سکون محسوس کرنے لگی۔ اس نے شاہی روایات کو بالائے طاق رکھ دیا، خاندانی اقدار کی قدغنوں سے بغاوت کر دی اور نئے راستوں پر چلنا شروع کر دیا۔ مغرب کا کلچر انہی امور سے عبارت ہے اور مرد اور عورت کے تعلقات کے حوالے سے مغرب کے کلچر کو ایک جملے میں پیش کرنا ہو تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’دوستی، شادی، طلاق اور پھر ذہنی سکون کی تلاش میں نت نئے تجربوں کی تھکا دینے والی دوڑ‘‘
لیڈی ڈیانا اس کلچر کا مکمل نمونہ تھی، اس لیے عالمی ذرائع ابلاغ نے اس کی حادثاتی موت سے خوب فائدہ اٹھایا، اور اس کی تصویر سامنے کر کے دنیا بھر میں مغربی کلچر کے ازسرنو تعارف کا ایک اور معرکہ سر کر دیا۔ عالمی میڈیا نے ڈیانا کی جو پکچر دکھائی ہے اس نے پوری دنیا میں کتنی معصوم بچیوں کے دلوں میں ’’ڈیانا‘‘ بننے کا جذبہ بیدار کیا ہوگا اور کتنی ابھرتی ہوئی ’’ڈیاناؤں‘‘ کے خاندانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہو گا؟ بس یہی ٹارگٹ ہے جو عالمی میڈیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس میں وہ ناکام نہیں رہا۔ عالمی میڈیا انسانی حقوق اور خواتین کی آزادی کے عنوان سے مشرقی عورت اور اس کے خاندان کے درمیان نفرت اور بے اعتمادی پیدا کرنے میں ایک عرصہ سے مصروف ہے، اب اسے اس معرکہ میں لیڈی ڈیانا کی صورت میں ایک مؤثر اور خوبصورت ہتھیار ملا ہے تو اس نے چابکدستی کے ساتھ یہ تیر بھی نشانے پر پھینک دیا ہے۔
لیکن اس سے ہٹ کر تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جسے نظرانداز کرنا شاید قرینِ انصاف نہ ہو، اس رخ کا صحیح منظر دیکھنے کے لیے دو تبصروں کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔ ایک تبصرہ تو خود لیڈی ڈیانا کا ہے جو فرانسیسی اخبار ’’لی موندے‘‘ کو اپنی زندگی کا آخری انٹرویو دیتے ہوئے اس نے خاندانی نظام پر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ
’’وہ اسلام سے متاثر ہے اور سمجھتی ہے کہ مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کو روکنے کے لیے اسلام سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان مرد وفادار ہوتے ہیں اور جن مغربی خواتین نے مسلمان مردوں سے شادیاں کی ہیں ان میں سے اکثر کی شادیاں کامیاب رہی ہیں۔ اسلام نے عورت کو جو احترام اور حقوق دیے ہیں کسی غیر مسلم معاشرے میں اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔‘‘
جبکہ دوسرا تبصرہ لیڈی ڈیانا کے بارے میں اس کے ایک سابق ذاتی معالج کا ہے جو بی بی سی نے ۳۱ اگست ۱۹۹۷ء کو نشر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ
’’ڈیانا کا شمار دنیا کی ان چند خواتین میں ہوتا تھا جو چھوٹی سی عمر میں دنیا بھر کے میڈیا کی ڈارلنگ رہی ہیں، اس کا ایک ایک سیکنڈ لاکھوں پونڈ میں فروخت ہوا، اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگوں کا مجمع لگ جاتا۔ اس کے چند لفظوں پر لوگ سماجی تنظیموں کو لاکھوں پونڈ کا چندہ دے دیتے، اس کے ایک انٹرویو پر رپورٹوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا، اس کے پاس دولت تھی، حسن تھا، کرشماتی شخصیت تھی، دنیا بھر کے دولت مند اس کی چوکھٹ پر پڑے رہتے تھے۔ لیکن وہ تنہا، اداس اور پریشان حال تھی، جب سارے ہنگامے ختم ہو جاتے اور اس کے گھر میں سناٹا چھا جاتا تو وہ شب خوابی کے لباس میں رات گئے تک اپنے ڈرائنگ روم میں چہل قدمی کرتی رہتی۔ اس نے آخری عمر میں بے تحاشہ سگریٹ پینا شروع کر دیے تھے، اس کی ذات میں شک بڑھ گیا تھا اور وہ کسی شخص پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی کیونکہ اس کے ہر دوست نے کچھ عرصے بعد خلوت کے راز فروخت کر کے نوٹ کھرے کر لیے تھے۔‘‘
یہ داستان صرف لیڈی ڈیانا کی نہیں ہے، اسے تو عالمی پریس تک رسائی حاصل تھی اس لیے اس کی داستان لوگوں تک پہنچ گئی، لیکن وہ کروڑوں ’’ڈیانائیں‘‘ اور ’’چارلس‘‘ جو اسی کرب کی بھٹی میں جل رہے ہیں، اور جن کے انسانی جذبات و احساسات کو خاندانی نظام کی تباہی نے کچل کر رکھ دیا ہے، مگر وہ اپنے درد کے اظہار کی کوئی راہ نہیں پا رہے۔ لیڈی ڈیانا نے اپنی ذات کی قربانی دے کر اس لاوے کو پھٹنے کی راہ دے دی ہے، اور جس مرد یا عورت نے بھی ڈیانا کو اپنے جذبات اور دلی کیفیات کی ترجمانی کرتے پایا ہے وہ اپنے احساسات کی اس ترجمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔
لیڈی ڈیانا صرف مغربی ثقافت کی علامت نہیں، بلکہ اس ثقافت کے ہاتھوں کچلے جانے والے انسانی جذبات و احساسات کی ترجمان بھی تھی، اور اسی ثقافت کی تباہ کاریوں کے خلاف بغاوت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھی۔ اس کی موت پر آخری رسوم کے لیے لندن میں جمع ہونے والی ریکارڈ تعداد مغربی تہذیب و ثقافت کے اس منطقی انجام کے قریب آنے کی بھی خبر دے رہی ہے جس کے بارے میں مفکرِ پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے پون صدی پہلے کہہ دیا تھا کہ ؎
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا