کوڑوں کی سزا اور آسمانی تعلیمات

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۰۹ء

سوات میں ایک نوجوان لڑکی کو کوڑے مارنے کے مبینہ واقعہ کی ویڈیو فلم نے ملکی اور عالمی سطح پر کوڑوں کی سزا کے حوالے سے ایک بار پھر ارتعاش پیدا کر دیا ہے اور ہر سطح پر اس کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک اس ویڈیو فلم کا تعلق ہے وہ ابھی تک مشکوک و متنازعہ ہے اور سپریم کورٹ میں اس کے بارے میں کوئی حتمی رپورٹ پیش کیے جانے اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے تک یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فلم فی الواقع کسی واقعہ کی فلم ہے یا جعلی طور پر بنائی گئی ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ یہ سوات میں معاہدۂ امن کے تحت نظامِ عدل نافذ ہونے اور اس کے لیے قاضیوں کی عدالتیں قائم ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے جس کی ذمہ داری اس معاہدے یا ان عدالتوں پر کسی طرح بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔

عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ہی اس کی صحیح صورتِ حال کو واضح کرے گا مگر اس کے باوجود اس ویڈیو فلم کی آڑ میں سوات کے معاہدۂ امن کو مسلسل ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے حتیٰ کہ امریکی وزیردفاع نے واضح طور پر معاہدۂ امن ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جبکہ مولانا صوفی محمد نے معاہدۂ امن پر صدر زرداری کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے امن کیمپ ختم کر کے اعلان کر دیا ہے کہ اب اگر حالات خراب ہوئے تو اس کی ذمہ داری صدر زرداری پر ہوگی۔ دوسری طرف صوبہ سرحد کی حکومت اور صدر زرداری کے ایک اور اتحادی مولانا فضل الرحمان ان پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ اس معاہدۂ امن پر دستخط کر دیں جس کے نتیجے میں سوات میں امن قائم ہوا ہے اور جس پر عملدرآمد نہ ہونے پر اس خطہ میں بد اَمنی کا ایک نیا بلکہ خوفناک دور شروع ہو سکتا ہے۔

ملک بھر کے لوگوں نے سوات میں امن قائم ہونے اور وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق شرعی عدالتوں کے قیام پر جو اطمینان کا سانس لیا تھا اس کا دورانیہ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور دلوں کی دھڑکن میں پھر سے تیزی آرہی ہے۔ یہ فیصلہ مستقبل قریب میں ہو جائے گا کہ اس خطہ میں عوام کی خواہشات اور وہاں کی اکثریت کے مذہب و کلچر کو غلبہ حاصل ہوتا ہے یا بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات اور ایجنڈے کو بالادستی کا پروانہ ملتا ہے، اس لیے کہ یہ بات مشاہدات کی بنیاد پر طے ہوگئی ہے کہ اس خطہ کے عوام کی اکثریت اپنے لیے شرعی عدالتوں کے نظام کو ہی پسند کرتی ہے۔ کسی کو ان کی اس خواہش سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات سے اختلاف کی بہرحال گنجائش نہیں ہے کہ اس خطہ کے عوام کی خواہش یہی ہے اور انہیں اس سے محروم کر دینا معروف جمہوری اصولوں کے بھی منافی ہوگا۔

مگر اس سے قطع نظر ہم اس موقع پر کوڑوں کی سزا کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں جسے اس مبینہ اور متنازعہ ویڈیو فلم کی آڑ میں ایک بار پھر قومی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا لیا گیا ہے۔ جہاں تک مختلف جرائم میں کوڑوں کی سزا کا تعلق ہے اسے تشدد پر مبنی سزا قرار دے کر اس پر تنقید کی جاتی ہے اور اسلام کےنظامِ عدل کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ حالانکہ ان سزاؤں کا آغاز اسلام نے نہیں کیا بلکہ یہ آسمانی مذاہب کے تسلسل کا حصہ ہے اور سابقہ شریعت میں بھی کوڑوں کی یہ سزا موجود تھی۔ جیسا کہ بائیبل کی لغات پر مشتمل مسیحی اشاعت خانہ فیروز پور روڈ لاہور کی شائع کردہ ’’قاموس الکتاب‘‘ میں درج ہے کہ:

’’پچھلے زمانے میں کوڑوں کی سزا دینا ایک عام دستور تھا۔ موسوی شریعت میں بعض سزاؤں میں کوڑے مارنے کی اجازت تھی۔‘‘ (استثناء ۲۵: ۲-۳)

’’یہودیوں کے کوڑے کی تین شاخیں ہوتی تھیں، مجرم کو لٹا کر چالیس کوڑوں تک لگانے کی اجازت تھی لیکن یہودی ۳۹ پر رک جاتے تھے تاکہ کہیں غلطی سے ۴۰ سے زیادہ نہ ہو جائیں۔‘‘ (استثناء ۳:۲۵)

’’جب عبادت خانے میں کوڑے لگائےجاتے تھے تو اس کا سردار یہ کام سرانجام دیتا تھا۔ یہودی عدالت بھی کوڑے لگا سکتی تھی۔‘‘ (اعمال ۴:۵)

’’رومی کوڑے میں لوہے یا ہڈی کے ٹکڑے بھی لگائے جاتے تھے جو ملزم کی کھال تک نوچ دیتے تھے۔ شاید اسی قسم کے کوڑوں کو (سلاطین ۴:۱۲ اور تواریخ ۱۱:۱۰ میں) بچھو کہا گیا ہے۔‘‘

قاموس الکتاب میں بائیبل کی کتاب استثناء کی جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمالیں جو بائیبل سوسائٹی انارکلی لاہو رکی شائع کردہ بائیبل میں یوں ہیں کہ:

’’اگر لوگوں میں کسی طرح کا جھگڑا ہو اور وہ عدالت میں آئیں تاکہ قاضی ان کا انصاف کرے تو وہ صادق کو بے گناہ ٹھہرائیں اور شریر پر فتویٰ دیں۔ اور اگر وہ شریر پٹنے کے لائق نکلے تو قاضی اسے زمین پر لٹوا کر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی شرارت کے مطابق اسے گن گن کر کوڑے لگوائے، وہ اسے چالیس کوڑے لگوائے اس سے زیادہ نہ مارے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے زیادہ کوڑے لگانے سے تیرا بھائی تجھ کو حقیر معلوم دینے لگے۔‘‘

اس لیے کوڑوں کی سزا کو صرف اسلام کے کھاتے میں ڈال کر اسلامی احکام پر طعن و اعتراض کا شوق پورا کرنا درست طرزعمل نہیں کیونکہ اگر کوڑے لگانا بالفرض درست نہیں ہے تو اس پر یہودیت اور مسیحیت بھی برابر کے ’’قصوروار‘‘ ہیں کیونکہ اسلام نے تو صرف ان کے تسلسل کو قائم رکھا ہے۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ کوڑوں کی یہ سزا مولویوں کی طے کردہ نہیں اور نہ ہی کسی فقہی مذہب کی ایجاد کردہ ہے بلکہ یہ سزا قرآن کریم نے مقرر کی ہے۔چنانچہ زنا کی صورت میں مرد اور عورت دونوں کو ۱۰۰ کوڑے مارنے کا حکم ہے (سورہ النور)، جبکہ کسی پاک دامن عورت پر بدکاری کی جھوٹی تہمت لگانے پر ۸۰ کوڑوں کی سزا بھی قرآن کریم نے ہی بیان کی ہے۔ اس لیے مولویوں اور فقہائے کرام پر غصہ نکالنے کے شوق میں اس بات کو نظرانداز نہ کر دیا جائے کہ کوڑوں کی سزا کو خدانخواستہ غیر انسانی قرار دینے کی زد براہِ راست قرآن کریم پر پڑتی ہے۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہمارے سنجیدہ مسیحی دوست بھی اس مطالبے میں ہمارے ساتھ ہیں اور وہ اسے پاکستان کی مسلم اکثریت کا حق سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے عقائد کے مطابق قرآن و سنت کے احکام پر مبنی شرعی قوانین کا نظام فراہم کیا جائے۔ چنانچہ معروف مسیحی دانشور جناب کنول فیروز کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے مسیحی جریدے ماہنامہ شاداب کی مارچ ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں برطانیہ میں مقیم ممتاز مسیحی دانشور جناب ہریش میسی کا ایک تفصیلی مکتوب شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’یہ غالباً ۱۹۶۵ء یا ۱۹۶۶ء (سن ٹھیک سے یاد نہیں) کا ذکر ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان اے آر کار نیلس مرحوم نے میلبورن (آسٹریلیا) میں بین الاقوامی کانفرنس برائے انصاف میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں خالصتاً اسلامی شرعی قوانین کو نافذ کر دینا چاہیے بلکہ دنیا کے باقی ممالک کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے، یہی معاشرے کی بھلائی کی ضمانت ہے۔ اس پر دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں اور ماہرین قانون نے جسٹس اے آر کار نیلس پر کڑی تنقید کی اور انہیں رجعت پسند اور ترقی کا دشمن کہا گیا، بعضوں نے تو اسے انتہائی مضحکہ خیز بیان سے منسوب کیا۔

جسٹس اے آر کار نیلس رہتے فلیٹیز ہوٹل کے کمرہ نمبر ۲ میں تھے مگر عبادت کرنے وہ انتھنی چرچ ایمپرس روڈ ملحقہ ڈون باسکو سکول جایا کرتے تھے۔ فادر اینڈریو (اندریاس) جو اس وقت ڈون باسکو ہائی سکول کے پرنسپل تھے اور جن کی خیرات اور محبت کے وسیلے ہم دونوں بھائیوں نے پرورش پائی، وہ جسٹس کار نیلس کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے، یہاں تک کہ انہیں بھی جسٹس کار نیلس کے اس بیان سے سخت اختلاف تھا۔ نہ جانے نبیوں کی اور کیا پہچان ہوتی ہے۔ میرے نزدیک کنول صاحب! جسٹس کار نیلس کا یہ بیان (Prophetic) بیان تھا۔ اندازہ کیجئے! یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ایوب خان کے دس سالہ دورِ ترقی کے قلابے ملائے جا رہے تھے، دور دور تک کہیں طالبان یا القاعدہ کا نام و نشان بلکہ تصور تک نہیں تھا، اگر تھا تو صرف اکیلا ایک مسیحی جج جو شرعی سزاؤں کے رائج کرنے کی بات کر رہا تھا جو اسلامی ریاست کا باشندہ ہونے کی وجہ سے خود کو کانسٹیٹیوشنل مسیحی کہتا تھا۔

وہ تو ایک مسیحی تھا اس کی بات ماننا شاید مسلمانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ اب تو مان لیں، اب تو مسلمان کہہ رہے ہیں بلکہ سراپا احتجاج بنے بیٹھے ہیں، آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک ملک جہاں ۹۶ فیصد مسلمان آباد ہیں وہاں اسلامی شرعی قانون کیوں رائج نہ ہو؟ آپ سمجھیں گے کہ میں پاگل ہوگیا ہوں شاید۔ لیکن سچ ہے کہ آپ کو ہم کو سب کو ایک بار اس سچ کو گلے لگانا پڑے گا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان صرف اس وقت مسلمان بنے گا جب انہیں شرعی قوانین کی وجہ سے اپنی جان کے لالے پڑیں گے کیونکہ ان کا یقین ہے کہ جنت کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے اگر وہ شرعی قوانین پر عمل پیرا ہوں۔ لہٰذا ہمین ان کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ خدا انہیں قرآنی قوانین کو رائج العام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔‘‘

الغرض کوڑوں کی سزا پر بحث کرنے والے دانشوروں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں قرآنی تعلیمات اور زمینی حقائق کا ضرور خیال رکھیں کہ عقل و دانش کا تقاضا بہرحال یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter