عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں اور مختلف دینی و سیاسی جماعتیں ملک بھر میں الیکشن مہم میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ مگر تذبذب اور بے یقینی کی دھند بدستور ملک کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی ہے، بلکہ بسا اوقات یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا ماحول قائم رکھنا شاید کسی پلاننگ کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد ؏ ’’رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند‘‘ کے مصداق عالمِ بالا ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر بہرحال آٹھ فروری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں اور ہم مسلسل دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت یہ مرحلہ خیر و خوبی کے ساتھ گزار دیں اور عجیب و غریب ماحول میں ہونے والا یہ الیکشن ملک و قوم کے لیے کسی نئی آزمائش کا باعث نہ بن جائے، آمین یا رب العالمین۔
قومی سیاست میں شریک دینی جماعتوں میں سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان ایک منظم سیاسی جماعت کے طور پر شریک ہے، اور جماعتِ اسلامی بھی اسی رخ پر گامزن دکھائی دیتی ہے، جبکہ باقی مذہبی جماعتیں اس الیکشن میں صرف اپنا وجود دکھانے کے لیے متحرک نظر آتی ہیں۔ حالانکہ سب یہ بات جانتے ہیں اور کئی بار بھگت چکے ہیں کہ دینی جماعتوں کو عوامی پذیرائی ہمیشہ اسی صورت میں ملی ہے جب وہ مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی سیاست میں آگے بڑھی ہیں۔ تحریکات کا میدان ہو یا الیکشن کا معرکہ ہو، دینی جماعتوں نے مشترکہ ایجنڈے پر جب بھی پیشرفت کی ہے عوام نے انہیں لبیک کہا ہے۔ اور الگ الگ مورچے گاڑنے پر کبھی کسی جماعت کو عوام کی عمومی حمایت میسر نہیں آئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دینی قیادتیں ماضی کے اس بار بار کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتیں اور الیکشن کے میدان میں اترنے سے قبل باہمی افہام و تفہیم اور اشتراک و ارتباط کا کوئی ماحول بنا لیتیں، مگر صد افسوس ایسا نہیں ہو سکا، جس کا نتیجہ کسی صاحبِ فکر و شعور سے مخفی نہیں ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ہم سب اسی نتیجے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اس ماحول میں، جو بہرحال قائم ہو چکا ہے اور کئی ماہ سے اسے بہتر رخ دینے کے لیے ہماری گزارشات صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہیں، دینی حلقوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں چند معروضات ملک بھر کے دینی حلقوں کی خدمت میں یاددہانی کے لیے پیش کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے ہمارے خیال میں ان نقصانات کی سنگینی کو کچھ نہ کچھ کم کیا جا سکتا ہے جو کھلی آنکھوں سب کو دکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ ملک بھر میں ہر حلقہ کے دینی کارکن اور علماء کرام باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی مشترکہ حکمتِ عملی طے کرنے کی کوشش کریں جس میں درج ذیل تین دائروں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
- جس حلقہ میں کوئی ذمہ دار دینی اور سیاسی شعور سے بہرہ ور راہنما الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کی ترجیحی بنیادوں پر حمایت کی جائے اور انہیں کامیاب بنانے کی کوشش کی جائے۔
- جس حلقہ میں دینی جماعتوں کے الگ الگ امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، انہیں آپس میں کسی ایک پر متفق کرنے کی سنجیدہ محنت کی جائے۔
- ہر حلقہ میں دینی کارکن ایک گروپ کی صورت میں ہر امیدوار کے حمایتی عوام اور کارکنوں کو تیار کریں کہ وہ جس کو بھی ووٹ دینا چاہیں اس سے اس مفہوم کا ایک عہد نامہ پر دستخط کرا لیں کہ وہ دستور کی پاسداری کریں گے، دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص تحفظِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتؐ کے قوانین کا تحفظ کریں گے، قومی خودمختاری اور معاشی خودکفالت کی بحالی کے لیے محنت کریں گے، نفاذِ شریعت کے لیے ایوان میں بھرپور کردار ادا کریں گے، اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف کسی قانون کی حمایت نہیں کریں گے، وغیر ذٰلک۔
اللہ پاک ہم سب کو بہتر کردار کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔