روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۱۳ جنوری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر دفاع رمزفیلڈ نے پینٹاگان میں پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ طالبان کے جن قیدیوں کو تفتیش کے لیے کیوبا کے قریب امریکی بیس میں منتقل کیا جا رہا ہے ان سے جنیوا کنونشن کے مطابق جنگی قیدیوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ جنگی قیدی نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے سینکڑوں ارکان کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے اب تک ساڑھے چار سو افراد کو امریکہ کے حوالے کیا جا چکا ہے جنہیں کیوبا کے امریکی بیس میں بتدریج منتقل کیا جا رہا ہے۔ بعض دیگر اخباری رپورٹوں کے مطابق ان قیدیوں کی ڈاڑھیاں اور سر کے بال مونڈھ دیے گئے ہیں اور انہیں ان کے لباس اتروا کر صرف نیکروں میں جہاز پر سوار کیا گیا ہے۔
یہ تو صرف وہ باتیں ہیں جو دیکھنے والوں کے نوٹس میں آ گئی ہیں، اس کے علاوہ ان قیدیوں کو جس وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کا اندازہ مذکورہ حرکت کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر دفاع کے اس بیان سے بھی کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے قیدیوں کو جنگی قیدی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ جنیوا کنونشن نے جنگی قیدیوں کے لیے جن قواعد و ضوابط کا تعین کر رکھا ہے ان کا اطلاق ان قیدیوں پر نہیں کیا جائے گا۔
امریکہ اور اس کے حواری پوری دنیا میں انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ کے فیصلوں اور جنیوا کنونشن کے اصولوں کا پرچار کرتے رہتے ہیں اور ان کے زبردستی نفاذ کے لیے خدائی فوجدار بنے ہوئے ہیں، لیکن انہی فیصلوں اور اصولوں کو خود اپنے لیے تسلیم کرنے سے امریکہ نے انکار کر دیا ہے۔ جس سے ہمارے اس موقف کی ایک بار پھر تصدیق ہو گئی ہے کہ انسانی حقوق، اقوام متحدہ کا منشور، اور بین الاقوامی اصولوں کا پرچار امریکہ کی طرف سے اصولوں کے طور پر نہیں بلکہ یہ اس کے ہتھیار ہیں جو اس نے صرف غریب ممالک کو دبانے اور مظلوم اقوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے اپنا رکھے ہیں۔
امریکہ کا یہ دوہرا معیار کوئی نیا نہیں، اس سے قبل امریکہ کئی بار اس دوہرے معیار کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے۔ اس لیے اس پر حیرت و تعجب کا کوئی محل نہیں، البتہ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کی مسلسل دہائی دینے والے مسلم حکمرانوں کی خاموشی اور بے حسی ضرور باعثِ تعجب ہے جو اس سب کچھ کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ’’خاموش تماشائی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔