سزائے موت کے خاتمہ کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد

   
تاریخ : 
جون ۲۰۰۴ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ اپریل ۲۰۰۴ء کی خبر کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے سزائے موت کے خلاف قرار داد اکثریت سے منظور کر لی ہے۔ قرار داد کے حق میں ۲۹ ووٹ آئے جبکہ پاکستان، سعودی عرب، امریکہ، جاپان، چین، بھارت اور مسلم ممالک سمیت ۱۹ ممالک نے اس کی مخالفت کی۔ ۵ ممالک بشمول برکینا فاسو، کیوبا، گوئٹے مالا، جنوبی کوریا اور سری لنکا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرار داد میں رکن ممالک پر سزائے موت کے خاتمے پر زور دینے کے علاوہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدم تشدد کے جرائم بشمول مذہبی معاملات اور بالغان کے باہمی رضا مندی سے جنسی تعلق کو سخت جرائم کی کیٹیگری سے نکال دیا جائے۔

عالمی سطح پر ایک عرصہ سے یہ مہم چل رہی ہے کہ قتل کی سزا کو بالکل ختم کر دیا جائے اور کسی بھی جرم میں مجرم کو موت کی سزا نہ دی جائے، مرد اور عورت کے باہمی رضا مندی کے ساتھ جنسی تعلق کو ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے سنگین جرائم کی فہرست سے نکال دیا جائے اور مذہبی نوعیت کے جرائم مثلاً کسی مذہب کی توہین، ارتداد، توہین رسالتؐ اور اس قسم کے معاملات کو بھی سخت جرم شمار نہ کیا جائے، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ تینوں باتیں درست نہیں ہیں۔

  • قرآن کریم نے قصاص کے قانون کو سوسائٹی کے لیے لازمی قرار دیا ہے اور اسے معاشرہ میں امن اور زندگی کے تحفظ کا ضامن قرار دیا ہے۔
  • شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے زنا کے جرم پر سنگسار کی سزا مقرر کی ہے۔
  • مرتد کے لیے موت کی سزا بتائی ہے۔
  • توہین رسالتؐ پر موت کی سزا طے کی ہے۔
  • ریاست کے خلاف بغاوت نیز ڈکیتی کی بعض صورتوں میں بھی موت کی سزا کا ذکر کیا ہے۔
  • اسی طرح اسلام نے باقاعدہ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کے جنسی تعلق کو زنا اور بدکاری قرار دیا ہے اور اس پر رجم اور کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے خواہ یہ جبر کی صورت میں ہو یا باہمی رضا مندی کے ساتھ، بلکہ جبر کی صورت میں تو صرف جبر کا مرتکب سزا کا مستوجب ہوگا اور رضا مندی کی صورت میں دونوں مجرم اور سزا کے حقدار ہوں۔
  • مذہبی جرائم مثلاً ارتداد، توہین رسالتؐ ، شعائر اللہ کی توہین اور ایک اسلامی ریاست میں اس کے خلاف دعوت و تبلیغ بھی اسلام کے نظام میں قابل سزا جرائم شمار ہوتے ہیں۔

مگر اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا قرار داد میں ان سب امور کی نفی ہوتی ہے۔ اگرچہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے لیکن ہمارے نزدیک صرف اس قرارداد سے اختلاف کرنا کافی نہیں ہے بلکہ مسلم حکومتوں اور ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کے اس مغربی فلسفہ اور اس حوالہ سے انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے بارے میں دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اس کی قرآن و سنت کی واضح تعلیمات متصادم دفعات کو مسترد کرنے کا اعلان کریں اور مسلم سربراہ کانفرنس کے فورم سے اس فلسفہ اور چارٹر پر نظر ثانی کا مطالبہ کریں، کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوگا اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے مطالبات بڑھتے جائیں گے اور ان سے مسلم دنیا میں تہذیبی انتشار اور فکری انارکی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter