’’اثمھما اکبر من نفعھما‘‘

   
۳۰ نومبر ۲۰۲۲ء

(کراچی میں مرکز الاقتصاد الاسلامی اور وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان کے زیراہتمام قومی حرمتِ سود سیمینار سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ اور ’’وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان‘‘ کا شکرگزار ہوں کہ ایک اہم ترین قومی و دینی مسئلہ پر تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور تاجر طبقہ کے راہنماؤں کے اس اجتماع کا اہتمام کیا، بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اور ان کے رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں۔

میں دو تین باتیں سودی نظام کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا:

پہلی بات یہ کہ سودی نظام سے نجات پوری نسلِ انسانی کی ضرورت ہے، سودی نظام نے دنیا میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ آج کے ماہرینِ معیشت خود کہہ رہے ہیں کہ سود نے انسانی معیشت کو نقصان دیا ہے اور اس کا مجموعی ماحول ’’اثمہما اکبر من نفعہما‘‘ کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ پھر یہ نظام اکیلا ہی دنیا پر اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہے اور کوئی متبادل نظام میدانِ عمل میں نہیں ہے۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ کوئی متبادل نظام سامنے ہو تاکہ دنیا دونوں کو دیکھ کر فیصلہ کر سکے کہ کون سا نظام اختیار کرنا ہے کیونکہ مقابلہ سے ہی کسی نظام کے بہتر ہونے کا علم ہو سکتا ہے۔

دوسرا دائرہ ہمارا قومی ہے جو اس حوالہ سے ہے کہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے اور قرآن و سنت کا صریح حکم ہے اور ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔

اور اس حوالہ سے بھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد میں کہا تھا کہ ہم ملک میں مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشی نظام چاہتے ہیں۔

پھر یہ پہلو بھی اہم ہے کہ دستورِ پاکستان میں صرف یہ وعدہ نہیں بلکہ ضمانت دی گئی ہے کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اس لیے یہ دستوری تقاضہ بھی ہے کہ سودی نظام سے ملک کو جلد از جلد نجات دلائی جائے۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری معاشی مشکلات اور بحران کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام ہے۔ ہم معاشی بحران کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور بیرونی قرضوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے جس سے ہماری قومی خود مختاری سوالیہ نشان بن گئی ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی ہماری قومی ضرورت ہے کہ قومی خود مختاری، معاشی استحکام اور ملکی استحکام کے لیے سودی نظام کی لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کریں۔

ہمیں خوشی ہے کہ تمام دینی مکاتبِ فکر کی قیادتیں اور بزنس کمیونٹی کے قائدین آج سودی نظام سے نجات کے عزم کے ساتھ ایک فورم پر جمع ہیں۔ اس موضوع پر ملک کے مختلف حصوں میں متعدد فورم کام کر رہے ہیں اور میں بھی تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کے نام سے ایک فورم کی نمائندگی کر رہا ہوں جو تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل ہے۔ اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس عنوان سے کام کرنے والے تمام حلقے اور فورم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانا پروفیسر ساجد میر، محترم جناب سراج الحق، اور دیگر قیادتیں آج جو فیصلہ بھی کریں گے، ہم سب ان کے ساتھ ہیں اور جو لائحہ عمل طے ہو گا اس پر عملدرآمد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

2016ء سے
Flag Counter