تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۴ء تک
مولانا اللہ وسایا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرگرم راہنماؤں میں سے ہیں جن کی تگ و تاز کا دائرہ تبلیغی، انتظامی، تحریکی اور تربیتی شعبوں کے ساتھ ساتھ تصنیفی میدان میں بھی دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے، اور وہ خداداد ذوق اور صلاحیتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد میں پوری طرح بروئے کار لا رہے ہیں۔
مولانا موصوف نے تحریک ختم نبوت کے تاریخی ریکارڈ کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس سلسلہ میں خاصی پیش رفت کر چکے ہیں جس کا اظہار زیرنظر ضخیم مجلدات سے ہوتا ہے۔
(۱) ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء‘‘
یہ نو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہے جس میں ۱۹۳۴ء میں قادیان میں مجلس احرار اسلام کی ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ سے ۱۹۵۳ء تک کے اہم واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بارے میں خاصا مواد جمع کر دیا گیا ہے۔ اور تحریک ختم نبوت کے دوران ہونے والے مبینہ فسادات کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کی کارروائی کے اہم حصے بھی شامل کیے گئے ہیں۔
(۲) ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء (حصہ اول)‘‘
بارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس ضخیم جلد میں ۵۳ء سے ۷۴ء تک تحریک ختم نبوت کے اہم واقعات، ۲۹ مئی ۷۴ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مسلم طلبہ پر قادیانیوں کے مسلح حملہ اور اس کے ردعمل میں ملک بھر میں ابھرنے والی تحریک ختم نبوت کے حالات، اور جسٹس صمدانی کی سربراہی میں قائم عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی کارروائی کو شامل کیا گیا ہے۔
(۳) ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء (حصہ دوم)‘‘
ساڑھے چار سو صفحات کی اس جلد میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں قومی اسمبلی کی تیرہ روزہ کارروائی کی تفصیل اور مرزا ناصر احمد پر ہونے والی جرح کے علاوہ مجلس تحفظ ختم نبوت کی مجلسی کارروائیوں کی رپورٹیں شامل ہیں۔ جبکہ قومی اسمبلی کی تیرہ روزہ کارروائی ایک الگ جلد کے طور پر بھی شائع کی گئی ہے۔
(۴) ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء (حصہ سوم)‘‘
ساڑھے نو سو صفحات پر مشتمل یہ جلد تحریک ختم نبوت کی عوامی سرگرمیوں کی رپورٹوں، اخبارات کے اداریوں، تبصروں، اشتہارات اور مجالس کی کارروائیوں پر مشتمل ہے۔
تحریک ختم نبوت کے بارے میں تاریخی ریکارڈ کو اس طرح مرتب صورت میں سامنے لانے پر مولانا اللہ وسایا بجا طور پر تبریک کے مستحق ہیں کیونکہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور اس کاوش سے مستقبل میں تحریک ختم نبوت پر کام کرنے والے محققین اور طلبہ کے لیے آسانی پیدا ہو گی۔ ان مجلدات کی قیمت بالترتیب دو سو روپے، دو سو روپے، ایک سو پچاس روپے، اور دو سو روپے ہے، اور انہیں دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’امام اعظم ابو حنیفہؒ علامہ شعرانیؒ کے علم و فضل کے آئینہ میں‘‘
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو ان کی علمی و فقہی خدمات پر امت کے ہر طبقہ اور مکتبِ فکر کے علماء اور دانش وروں نے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان میں دسویں صدی ہجری کے معروف شافعی بزرگ امام عبد الوہاب شعرانیؒ بھی ہیں جنہوں نے اپنی تصنیف ’’المیزان الکبریٰ‘‘ میں جا بجا امام اعظمؒ کا تذکرہ کر کے ان کی دینی و فقہی مساعی کو سراہا ہے۔ ماہنامہ الہلال مانچسٹر کے مدیر اور ہمارے فاضل دوست مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے امام اعظمؒ کے بارے میں امام شعرانیؒ کے ان ارشادات کو خوبصورتی کے ساتھ جمع کر کے ان کا اردو ترجمہ کر دیا ہے جو ان کی قابلِ داد کاوش ہے۔
ایک سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کی قیمت ایک پونڈ ہے اور اسے اسلامک اکیڈمی مانچسٹر سے طلب کیا جا سکتا ہے جس کا مکمل ایڈریس یہ ہے۔
ISLAMIC ACADEMY
’’رویتِ ہلال علم فلکیات کی روشنی میں‘‘
برطانیہ میں رویتِ ہلال کا مسئلہ خاصے عرصہ سے علماء کے حلقوں میں موضوع بحث ہے اور ہر سال رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر یہ بحث ازسرنو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ رؤیتِ ہلال کے لیے سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کی پیروی کرنے کی بجائے علمِ فلکیات کے مسلّمات کا بھی لحاظ رکھا جائے اور برطانیہ کے لیے ثبوتِ ہلال کا مستقل نظام کار وضع کیا جائے۔
ہمارے فاضل دوست مولانا ثمیر الدین قاسمی فاضل دیوبند نے زیر نظر رسالہ میں علمائے کرام کی اس جماعت کے موقف کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ رویتِ ہلال کے فنی پہلوؤں پر بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں مختلف اصحابِ علم کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کی تفصیل بھی پیش کی ہے۔
نفسِ مسئلہ پر اظہارِ رائے سے قطع نظر ہمارے نزدیک علمی اور فنی طور پر یہ کاوش قابلِ قدر ہے کیونکہ اس قسم کے علمی مباحث سے گزر کر علماء و فقہاء اس نوعیت کے اجتہادی مسائل میں اعتماد کے ساتھ کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہ رسالہ مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے: مدرسہ تعلیم الاسلام۔
’’طلاقِ ثلاث اور حافظ ابن القیمؒ‘‘
از: مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی
صفحات: ۱۰۶
کتابت و طباعت معیاری
ناشر: الفرقان بک ڈیو، نظیر آباد، لکھنو، انڈیا
قیمت: ۳۵ روپے
ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دیے جانے پر ان کے شرعی حکم کا مسئلہ اہلِ علم میں ایک عرصہ سے موضوع بحث چلا آ رہا ہے:
ایک طرف جمہور علمائے امت ہیں جن کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا مسنون طریقہ نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو طلاقیں تین ہی واقع ہوں گی۔
دوسری طرف شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیهؒ ہیں جو یہ فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کی صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوگی اور خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہو گا۔
حافظ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اس تفرد کو تبحر علمی اور زور استدلال کے ساتھ منوانے کی کوشش کی تو انہیں اس دور کے دیگر اہلِ علم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ ان کے لائق و فاضل شاگرد حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ اپنے استاد کے دفاع کے لیے میدان میں آئے اور اپنی متعدد تصنیفات میں اس پر زور بیان صَرف کیا، لیکن چونکہ اصل داعیہ اپنے قابلِ فخر استاد کا دفاع اور ان کی حمایت میں طبعی طور پر پیدا ہو جانے کی حمیت تھی، اس لیے حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ اس بحث میں وہ اسلوب اور معیار قائم نہ رکھ سکے جو ان کے علم و مقام و مرتبہ کے شایان شان تھا اور جس کی اہلِ علم کو کسی بھی علمی موضوع پر ان سے توقع ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارت میں عدالتِ عظمیٰ کے ایک فیصلے کے حوالہ سے وہاں کے علمی حلقوں میں طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ پھر سے عمومی بحث و تمحیص کا موضوع بن گیا ہے اور اس کی صدائے باز گشت لندن کے بعض اخبارات میں بھی سنائی دی تو ہمارے فاضل اور محترم بزرگ حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی نے اس پر قلم اٹھایا اور تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے کے موقف کے سب سے بڑے وکیل حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کے دلائل اور طرز استدلال کا جائزہ لیتے ہوئے زیر نظر کتابچہ میں اس فرق کو واضح کیا جو علمی مسائل میں حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ کے مخصوص علمی و تحقیقی اسلوب اور زیر بحث موضوع کے حوالے سے ان کے طرز استدلال میں اہلِ نظر کو محسوس ہو رہا ہے۔ زبان لکھنؤ کی اور قلم مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کا۔ اس کے بعد اس کتابچہ کے بارے میں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، بس
کتابچہ لکھنؤ کے علاوہ لندن میں مندرجہ ذیل مقام سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے:
90-B HANLEY ROAD LONDON N4 3DW (U-K)