حالات و واقعات

   
۳۱ مئی ۱۹۷۴ء

’’نصرت‘‘ کا شمارہ ضبط کیا جائے

ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ لاہور جو کبھی وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے کی زیرادارت سوشلزم کی منادی کیا کرتا تھا، آج کل رامے صاحب کی سرکاری مصروفیات کے باعث ایک اور صاحب کی ادارت میں عریانی کو سندِ جواز فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ’’نصرت‘‘ کے ۱۲ مئی کے شمارہ میں سیدنا حضرت آدم و حوا علیہم السلام کی بالکل عریاں تصاویر کی اشاعت اور ایک غیر معروف مسلم ریاست عجمان کی ڈاک ٹکٹوں کے حوالے سے عریانی کے جواز پر بحث اس قدر حیا سوز ہے کہ ارباب ’’نصرت‘‘ کی شرم و حیا کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اور اس پر کس قدر حیرت و تعجب کی بات ہے کہ غیر ملکی جرائد کی اس نوعیت کی حرکات پر احتجاج و اضطراب کا مظاہرہ کرنے والی تنظیمیں ابھی تک خاموش ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام اور ایک دو دیگر تنظیموں کے سوا کسی کا احتجاجی بیان تک نظر سے نہیں گزرا۔ جبکہ چاہیے یہ تھا کہ اس حرکت کو ’’سکوت و رضا‘‘ کی سند فراہم کر کے اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے سختی سے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تاکہ آئندہ کسی کو اسلامیان پاکستان کی غیرت سے کھیلنے کی جرأت نہ ہوتی۔

ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’نصرت‘‘ کا مذکورہ شمارہ فی الفور ضبط کر کے اس حرکت شنیعہ کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کی جائے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت و ناموس کو بازیچۂ اطفال بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔

سرحد و بلوچستان کے عوام

متحدہ جمہوری محاذ کے سربراہ اور ممتاز مسلم لیگی راہنما جناب پیر صاحب آف پگاڑا شریف نے صوبہ سرحد کے دورہ کے بعد لاہور میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سرحد کے عوام مضبوط و مستحکم پاکستان کے حامی ہیں، ان کے خلاف علیحدگی پسندی کا الزام قطعی غلط ہے، مگر موجودہ حکومت کی غلط روش باہمی اعتماد و تعاون کی اس فضا کو مسموم کر رہی ہے۔

پیر صاحب بچی کھچی مسلم لیگ کے قائد ہیں اور ان کا یہ ارشاد سرحد و بلوچستان کے عوام کی حب الوطنی پر یقیناً سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ ہی سے منسوب کچھ افراد نے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سرحد و بلوچستان کے عوام کی حب الوطنی کو مسلسل چیلنج کیا ہے اور آج بھی یہ عناصر خان عبد القیوم خان کی سرکردگی میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام میں بے اعتمادی اور نفرت کے بیج بونے میں مصروف ہیں۔ موجودہ حکومت نے سرحد و بلوچستان کے سیاسی حقوق غصب کر کے چھوٹے صوبوں میں بے یقینی کا جو بیج بویا ہے عبد القیوم خان اور ان کا ٹولہ اس کی آبیاری کر رہا ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ مفاد پرستوں کا ایک گروہ ’’مسلم لیگ‘‘ ہی کے نام سے باقی ماندہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ہم پیر صاحب آف پگاڑا شریف، ملک محمد قاسم صاحب، چوہدری ظہور الٰہی صاحب اور خواجہ محمد صفدر صاحب سے یہ عرض کریں گے کہ وہ سرحد و بلوچستان کے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ ان کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ان سازشوں کا تانا بانا بننے والے نام نہاد مسلم لیگیوں کا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔ ورنہ خدانخواستہ باقی ماندہ پاکستان کو کچھ ہوگیا تو مسلم لیگ اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکے گی۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو نظر بد سے بچائیں، آمین یا الہ العالمین۔

کچھ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے بارے میں

ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کی حالت زار کے بارے میں ہم اپنے قارئین کو بارہا توجہ دلا چکے ہیں۔ لیکن ہر بار وقتی جوش کے سوا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایجنٹ حضرات نے بقایا جات کا بیشتر حصہ ابھی تک ادا نہیں کیا۔ ادارہ مقروض ہے۔ ترجمانِ اسلام کو اخباری کاغذ کا کوٹہ نہ ملنے کی وجہ سے کاغذ مارکیٹ سے خریدنا پڑتا ہے، اور اخباری کاغذ کی قیمت میں حالیہ ہوشربا اضافہ کے باعث کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

مختصر ترین انتظامی عملہ، قارئین و ایجنٹ حضرات کی بعض جائز شکایات کے سامنے بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پرچہ کی اشاعت میں بے قاعدگی اور تاخیر معمول بن چکی ہے۔ اس تمام صورتحال پر غور و خوض کے لیے قائد جمعیۃ اور ترجمانِ اسلام کے نگران اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے جون کے دوسرے ہفتہ میں ترجمانِ اسلام سے عملی وابستگی رکھنے والے حضرات کا ایک مشاورتی اجلاس طلب فرمایا ہے۔

ہم قارئین اور ایجنٹ حضرات سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ جمعیۃ علماء اسلام کے اس غریب آرگن کو ’’بحران‘‘ سے نکالنے کے لیے اپنی مفید تجاویز اور قیمتی مشورے مدیر ترجمانِ اسلام کو جلد از جلد ارسال فرمائیں تاکہ مشاورتی اجلاس میں ان آراء کی روشنی میں کوئی مستقل پروگرام طے کیا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter