قومی تعلیمی پالیسی ‒ ایک نئی ملکۂ ترنم

   
تاریخ : 
۱۰ مارچ ۱۹۷۸ء

چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے مشیر برائے تعلیم محمد علی ہوتی نے گزشتہ روز پی پی آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کا جلد اعلان کر دیا جائے گا اور اس سلسلہ میں تجاویز کو آخری شکل دے دی گئی ہے۔

عبوری حکومت کی قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں تو اس کے سامنے آنے کے بعد ہی کچھ عرض کیا جا سکے گا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کرنا اور اس امر کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں کہ تعلیمی مسائل کے سلسلہ میں پالیسی کے لیے تجاویز پر غور و خوض کرنے کی غرض سے گزشتہ دنوں جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور تعلیمی کمیشن قائم کیا گیا تھا اس میں اسلامی و عربی تعلیم کے اس پورے نظام کو نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کی شاخیں ملک کے طول و عرض میں قائم ہیں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مدارس مصروف عمل ہیں۔ قومی سطح پر تعلیمی پالیسی کے تعین میں اس نظام کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام کو اعتماد میں لیے بغیر بنائی ہوئی پالیسی کو قومی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس لیے جناب محمد علی خان ہوتی سے گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیں اور اسلامی و عربی مدارس کے ملک گیر نظام کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے قومی تعلیمی پالیسی کے تعین کے سلسلہ میں انہیں بھی اعتماد میں لیں اور ان کا نقطۂ نظر بھی سماعت فرمائیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں ایک قومی پالیسی کے تعین کی طرف آگے بڑھ سکیں۔

ایک نئی ملکۂ ترنم

پی پی آئی کی ایک خبر کے مطابق گزشتہ روز کوئٹہ میں بلوچستان کونسل کی طرف سے معروف گلوکارہ ناہید اختر کو سونے کا تاج پہنایا گیا۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، جس کا سرکاری مذہب اسلام ہے، نئی نسل کو نظریاتی و اخلاقی لحاظ سے مفلوج کرنے اور جنس و رومان کا دلادہ بنانے میں ہمارے گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آرٹ اور ثقافت کے نام پر ان لوگوں نے فحش گوئی اور ہیجان انگیزی کی مہم کو جس طرح آگے بڑھایا ہے اس کے اثرات نوجوان نسل میں نمایاں نظر آرہے ہیں اور آنکھیں بند کر کے اس مہم کی ہلاکت خیزی کی شدت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ آرٹ اور ثقافت کے نام پر کھیلے جانے والے بے ہودگی کے اس عمل کو سرکاری سرپرستی اور پشت پناہی حاصل ہے اور یہ سب کچھ قومی سرمایہ کے بے دریغ استعمال سے ہو رہا ہے۔ اس سے قبل نور جہاں نامی ایک ملکۂ ترنم کو ریڈیو اور ٹی وی جیسے قومی نشریاتی اداروں پر اجارہ داری حاصل تھی اور اب بے ہودہ گوئی میں اسے پیچھے چھوڑ دینے والی ایک اور صاحبہ تشریف لا کر سونے کے تاج کی حقدار ٹھہری ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت پر رحم فرمائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter