وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ ہم نے جہاد افغانستان میں فریق بن کر غلطی کی تھی اور پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر بھی غلطی کی ہے، آئندہ یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے یہ بات سعودی عرب ایران کشمکش کے تناظر میں کہی ہے۔
جہاں تک اپنی غلطیوں کو محسوس کرنے، ان کا اعتراف کرنے اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کے عزم کا تعلق ہے، خواجہ صاحب کا یہ ارشاد خوش آئند ہے اور قومی سیاست میں اچھی پیش رفت کی علامت ہے کہ حکمران طبقات میں بھی اپنی غلطیوں کے اعتراف کی روایت آگے بڑھنے لگی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان دونوں حوالوں سے حالات و واقعات اور اپنے رویوں پر تفصیلی بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا صحیح طور پر اندازہ ہو سکے کہ ہم نے اصلی غلطی کہاں کی ہے۔
جہاد افغانستان کا پس منظر یہ تھا کہ سوویت یونین نے افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھاتے بڑھاتے اپنا نظام و فلسفہ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لیے مسلح لشکر کشی بھی کر دی تھی جس کے رد عمل میں افغان علماء کرام اور عوام نے مسلح مزاحمت کا آغاز کیا جو بالآخر ایک بڑی اور بین الاقوامی جنگ میں تبدیلی ہوگئی۔ بہت سے پاکستانی راہنماؤں کو یہ خدشہ تھا کہ کمیونسٹ نظام اور اثر و رسوخ کا افغانستان میں استحکام اس کے پاکستان تک وسیع ہو جانے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح لشکر کشی کی آخری منزل گوادر دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ گوادر جہاں تک سوویت یونین کی رسائی کو روکنے کے لیے طویل جنگ لڑی گئی مگر وہی رسائی چین کو مہیا کرنے کے لیے تجارتی راہداری کی تعمیر میں ہمارے قومی راہنما ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال اس دور میں پاکستان تک کمیونسٹ نظام کی وسعت اور گوادر تک سوویت یونین کی رسائی کے خطرات نے نہ صرف حکمران طبقات کو چوکنا کر دیا تھا بلکہ مذہبی عناصر بھی متحرک ہوگئے تھے ۔ اور ریاستی قوت کے ساتھ مل کر مذہبی حمیت نے جہاد افغانستان میں پاکستانی عوام کی براہ راست شرکت کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔
بات یہاں تک رہتی تو سمجھ میں آرہی تھی جیسا کہ اس دور میں مولانا مفتی محمودؒ بار بار یہ کہتے رہے کہ افغان مجاہدین صرف افغانستان کی آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی برسر پیکار ہیں۔ مولانا مفتی محمودؒ کی یہ صدا آج بھی پاکستان کے طول و عرض کے مختلف شہروں کی فضا میں گونج رہی ہے کہ پاکستان کے تشخص اور سالمیت کی جنگ افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔ لیکن جب افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ کو کامیابی کی طرف بڑھتے دیکھ کر امریکی استعمار نے اپنا ’’لچ‘‘ تلنا شروع کر دیا تو معاملات میں بگاڑ پیدا ہونے لگا۔ ہمیں یاد ہے کہ جہاد افغانستان میں امریکہ کی عملی دلچسپی اور کردار کے بعد افغان مجاہدین کے آٹھ گروپوں کا اتحاد قائم ہوا اور مولانا نصر اللہ منصور شہیدؒ کو اس کا سیکرٹری جنرل چنا گیا تھا تو مولوی نصر اللہ منصورؒ نے اس بات سے اختلاف کیا تھا کہ امریکہ کو جنگ کی کمان میں حصہ دار بنایا جائے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ حمایت اور امداد قبول کرنے میں حرج نہیں ہے مگر معاملات کو بیرونی کنٹرول میں دے دینا جہاد افغانستان کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس اختلاف کی وجہ سے انہیں جہاد افغانستان کا باقی دورانیہ بیرون ملک جلاوطنی کی حالت میں گزارنا پڑا تھا۔ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی اور حضرت صبغۃ اللہ مجددی کی صدارت میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد انہیں افغانستان واپس آنا نصیب ہوا تھا اور اسی دوران وہ جام شہادت نوش کر گئے تھے۔
امریکہ کو جہاد افغانستان میں اس درجہ کا عمل دخل دلوانے میں کن لوگوں کا ہاتھ رہا ہے اور اس کے لیے کس کس سطح پر کام ہوا ہے؟ اس کی تفصیل مناسب موقع پر بیان کی جا سکتی ہے ، البتہ اس کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں اور خدا جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔
ہمیں خواجہ محمد آصف صاحب کے اس ارشاد سے اتفاق ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی، البتہ یہ غلطی افغان مجاہدین کی حمایت و امداد میں نہیں بلکہ پورے جہاد افغانستان کی باگ دوڑ امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے موقع پر ہوئی تھی۔ اور پھر یہی غلطی ہم نے مشرف دور میں دہرائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ خود لڑنے کی بجائے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر کو بھی اپنا دشمن قرار دے دیا جو امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور خطہ میں امریکہ کے خود ساختہ مفادات کی مخالفت کر رہے ہیں، جس سے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ خود ابہامات اور شکوک و شبہات سے دوچار ہوگئی۔
البتہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کی اس بات میں وزن ہے کہ خطہ کی موجودہ صورت حال امریکی پالیسیوں کی وجہ سے رونما ہوئی ہے اور سب کچھ خود امریکہ کا کیا دھرا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ محترم سرتاج عزیز کے اس موقف کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، چنانچہ جہاد افغانستان کے آغاز سے اب تک کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ قومی تقاضے کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اصل حقائق تک رسائی اور ان کے غیر جانبدارانہ جائزہ کی سوچ اپنائی جائے۔ خدا کرے کہ ہم اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنی لابیوں اور حلقوں کے دائروں سے ہٹ کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی علمی و فکری کام کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔