کراچی کے المناک سانحہ نے پوری قوم کو کرب و اضطراب سے دوچار کر دیا ہے اور ہر باشعور شہری ملکی امن کے مسئلہ پر مجسم سوال بن کر رہ گیا ہے۔ قومی پریس میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق ۱۴ جولائی کو کراچی صدر کے بارونق علاقوں ایمپرس مارکیٹ اور بوہری بازار میں پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے کے ساتھ بموں کے چار دھماکوں نے قیامتِ صغریٰ بپا کر دی، آگ اور خون نے پورے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا اور کم و بیش سوا سو افراد جاں بحق اور ساڑھے چار سو سے زائد زخمی ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بموں کے یہ دھماکے تسلسل سے ملک کے مختلف شہروں میں ہو رہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل لاہور میں یہ دھماکے بے گناہ شہریوں کو خاک و خون میں تڑپا چکے ہیں، اب ملک کا سب سے بڑا اور سب سے گنجان شہر کراچی سنگدلی، سفاکی اور وحشت کی ان وارداتوں کی زد میں ہے اور اسی دوران پشاور کے جنرل بس اسٹینڈ میں بھی اسی قسم کے ایک دھماکے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔
ملک کے امن و امان اور شہریوں کی جان و مال کو تحفظ کے احساس سے یکسر محروم کر دینے والے ان دھماکوں کے پسِ منظر کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی سے لے کر ملک میں نئے مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کی تیاری تک کی باتیں اس ضمن میں سامنے آرہی ہیں مگر ان تمام قیاس آرائیوں سے قطع نظر سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری اس سلسلہ میں کیا ہے؟ کیا دھماکوں کی مذمت کر دینا، متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا، زخمیوں کی عیادت کرنا اور دھماکوں کے پس منظر کے بارے میں قیاس آرائیوں کی دوڑ میں شامل ہو جانا ہی ان کے فرائض میں ہے؟ یا ان وارداتوں کے مجرموں کو قانون کے شکنجے میں جکڑنا، ان کے عوامل اور پشت پناہوں کو بے نقاب کرنا اور ایسی المناک وارداتوں کا سدباب کرنا بھی ان کا فریضہ ہے؟
ان نازک ترین سوالوں کا جواب حکمرانوں کے ذمے ہے اور شاید اب قوم زیادہ دیر تک اس جواب کا انتظار نہ کر سکے۔ بقول شاعر
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے