روزنامہ اسلام لاہور ۱۹ جنوری ۲۰۱۱ء میں شائع شدہ خبر کے مطابق سوات میں دارالقضاء کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔
صوبائی سطح پر دار القضاء کے قیام کا مطالبہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے کیا تھا اور پھر تحریک طالبان اسلام کے مولوی فضل اللہ صاحب نے اس کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ اس کے لیے صوبائی اسمبلی نے ’’شرعی نظام عدل ریگولیشن‘‘ باقاعدہ طور پر منظور کیا تھا اور صوبائی حکومت کے تحریک طالبان کے ساتھ معاہدے میں بھی اس کا قیام شامل تھا۔ اعلان کے مطابق دار القضاء کے جج صاحبان کے اختیارات ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہوں گے اور سردست پشاور ہائیکورٹ کے دو جج اس منصب پر کام کریں گے۔ دارالقضاء میں ضلعی شرعی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی جائے گی اور رٹ پٹیشن بھی دائر کی جا سکے گی۔
دارالقضاء کے قیام سے اس کا مطالبہ کرنے والوں کا ہدف کہاں تک حاصل ہوا ہے اس کے بارے میں وہی کچھ بتائیں گے یا وقت گزرنے کے ساتھ پتہ چلے گا کہ سوات میں عملی طور پر شرعی قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے یہ دار القضاء کس حد تک مفید اور مؤثر ثابت ہوا ہے۔ ہم اس کے بارے میں سردست کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ اس حد تک یہ بات خوش آئند ہے کہ سوات کے عوام کو شرعی قوانین کا نظام مہیا کرنے کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں پیشرفت ہوئی ہے اور ان کا یہ حق بہرحال حکمرانوں کے ذہنوں میں موجود ہے کہ انہیں اپنے مقدمات و تنازعات کا فیصلہ اپنے عقیدہ و ایمان کے تحت شرعی قوانین و احکام کے ذریعے کرانے کا موقع دیا جائے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس ظاہر کو حقیقت میں بدل دیں اور نہ صرف سوات بلکہ ملک بھر کے عوام کو نفاذ شریعت کی برکات و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔