دہشت گردی کے خلاف جنگ اور غلط مغربی مفروضے

   
۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے، جو محترم پروفیسر خورشید احمد کا ادارہ ہے، ۳۰ دسمبر ۲۰۰۸ء کو قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ اور طالبات کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا، محترمہ پروفیسر شبانہ فیاض کی نگرانی میں طلبہ اور طالبات کا ایک بھرپور گروپ شریک محفل تھا۔ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمان اس نشست کو کنڈکٹ کر رہے تھے جبکہ مردان سے قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمان جو رابطۃ المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں، اور راقم الحروف نے طلبہ و طالبات سے دینی مدارس کے حوالے سے گفتگو کرنا تھی اور ان کے سوالات کا سامنا کرنا تھا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے ’’مدرسہ اصلاحات‘‘ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت، اس سلسلہ میں دینی مدارس کے موقف اور پروگرام کی وضاحت کی اور متعلقہ سوالات کے جواب دیے۔ جبکہ میں نے ’’مدرسہ اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ کے بارے میں مدرسہ کے موقف اور تاثرات پر معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

میرا تعلق دینی مدارس سے ہے، میں نے اپنی ساری تعلیم بارہ تیرہ برس تک دینی مدارس میں حاصل کی ہے، اس کے بعد کم و بیش چالیس برس سے دینی مدارس میں ہی تدریس کی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے سب سے بڑے وفاق ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کی مجلس عاملہ کا رکن ہوں، اس حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کے بارے میں اپنے جذبات، موقف اور تاثرات آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

  1. اس سلسلہ میں میری پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ جنگ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی تعریف طے کیے بغیر لڑی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری تھی اور اس سے تقاضا بھی کیا گیا کہ اس عالمی فورم پر دہشت گردی کی کوئی واضح تعریف متعین کر دی جائے تاکہ دہشت گردی اور آزادی کی جنگ میں فرق کیا جا سکے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس طرح کسی قوم، ملک، گروہ یا فرد کو دہشت گرد قرار دینے اور اس پر چڑھ دوڑنے کا اختیار صرف حملہ آور قوتوں کے پاس ہے۔ اس جنگ کے ایک فریق کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں جسے چاہے دہشت گرد قرار دے اور اس کے خلاف مسلح کاروائی کر ڈالے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک اقوام متحدہ کے فورم پر دہشت گردی کی کوئی تعریف طے نہیں کی جاتی، یہ جنگ یکطرفہ ہے اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ میں یہ بات اب تک نہیں سمجھ پایا کہ روس کے خلاف افغان عوام کی جنگ کو ’’جہادِ آزادی‘‘ تسلیم کیا گیا اور ساری دنیا نے اسے سپورٹ کیا، خود میں بھی اس کے حامیوں میں تھا اور روس کے خلاف افغانستان کے جہادِ آزادی کے دوران خود مورچوں میں بھی گیا ہوں، اب بھی اسے افغان عوام کا جہادِ آزادی سمجھتا ہوں، اس کی بنیاد یہ تھی کہ سوویت یونین نے افغانستان میں مسلح افواج اتار کر افغان قوم کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کر لیا تھا حالانکہ وہ اس وقت افغانستان کی ایک تسلیم شدہ حکومت کی دعوت پر آیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے خلاف افغان عوام کو مسلح مزاحمت کا حق حاصل تھا اور اس حق کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے تو مڈل ایسٹ، عراق اور افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج کی آمد اور تسلط کے خلاف ان ملکوں کے عوام کو مسلح مزاحمت کا حق کیوں نہیں ہے اور اسے دہشت گردی کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ میں افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد، اور مشرقی وسطیٰ اور افغانستان میں امریکی فوجوں کی آمد کے درمیان فرق نہیں سمجھ سکا۔ اور اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ اگر روسی فوجوں کے خلاف مسلح مزاحمت جہادِ آزادی تھا تو امریکی فوجوں کے خلاف مسلح مزاحمت جہادِ آزادی کیوں نہیں ہے؟
  3. تیسری گزارش یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں دینی مدرسہ کو دہشت گردی کا سرچشمہ قرار دیا جا رہا ہے جو معروضی حقائق کے منافی ہے، صرف اس لیے کہ جن کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ان کی ایک بڑی تعداد نے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے؟ اس جنگ کے میڈیا سیکشن میں ’’دینی مدرسہ‘‘ کو ہدف بنا لیا گیا ہے حالانکہ مبینہ دہشت گردی کے گروپوں میں ایک بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ دہشت گرد ہیں یا نہیں، جن کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے ان گروپوں میں تناسب دیکھ لیا جائے کہ دینی مدارس کے تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب کیا ہے۔ عالمی سطح پر اسامہ بن لادن کو مبینہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ اسامہ بن لادن اور ان کے پورے نیٹ ورک میں شاید ایک بھی شخص ایسا نہ ملے جو کسی روایتی دینی مدرسہ کا تعلیم یافتہ ہو۔ میرے خیال میں اصل بات اور ہے۔ دینی مدارس کے خلاف مغرب کا اصل غصہ کسی اور حوالے سے ہے جسے دہشت گردی کے ساتھ نتھی کر کے مغرب دینی مدارس کو ان کے کردار سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    دینی مدارس مغرب کے خلاف ایک مورچہ ضرور ہیں لیکن یہ علمی، فکری اور تہذیبی مورچہ ہے جسے مغرب اپنی تمام تر قوت اور قہر سامانیوں کے باوجود سر نہیں کر سکا۔ مغرب نے پوری دنیا میں مذہب کا سوسائٹی کے ساتھ رشتہ ختم کر دیا ہے، مغرب کا سیکولر فلسفہ دنیا میں ہر طرف اپنے تسلط اور بالادستی کا جادو جگا رہا ہے لیکن دنیائے اسلام بالخصوص جنوبی ایشیا کا مسلمان سوسائٹی اور اجتماعیت کے ساتھ اسلام کے تعلق کو منقطع کرنے کے لیے تیار نہیں، اور اسلام ہی کو اپنی قومی و معاشرتی زندگی کی اساس قرار دینے پر مصر ہے، جس کی ایک بڑی وجہ دینی مدارس ہیں۔ مغرب بجا طور پر یہ سمجھ رہا ہے کہ اسے مسلمانوں سے اپنا مذہب بیزار سیکولر فلسفہ تسلیم کرانے میں جو ناکامی ہوئی ہے اس کا باعث دینی مدرسہ ہے اس لیے وہ دینی مدرسے کو اس کے کردار سے الگ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے اپنا کام آسان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

  4. چوتھی گزارش یہ ہے کہ مغرب یہ جنگ دو مفروضوں کی بنیاد پر لڑ رہا ہے اور اس سلسلہ میں وہ زمینی حقیقتوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیے ہوئے ہے۔ مغرب کا کہنا ہے کہ اس کے بقول جو لوگ دہشت گردی کر رہے ہیں وہ جہالت کی وجہ سے کر رہے ہیں، اگر ان کے علاقوں میں تعلیم کو عام کر دیا جائے تو دہشت گردی کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح مغرب کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ یہ دہشت گردی غربت کی وجہ ہے اور ان غریب لوگوں میں چند ڈالر تقسیم کر کے انہیں دہشت گردی سے روکا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں خودساختہ مفروضے ہیں اس لیے کہ مبینہ دہشت گردی کا عالمی نیٹ ورک اسامہ بن لادن کا ہے اور اس نیٹ ورک میں شریک لوگ نہ تو جاہل ہیں اور نہ ہی غریب ہیں۔ وہ یونیورسٹیوں کے اعلیٰ سطح کے تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس دولت کی بھی کمی نہیں ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مغرب دو معروضی حقیقوں کو نظر انداز کیے ہوئے ہے:
    • ایک یہ کہ جن لوگوں کودہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے وہ ایک عقیدہ رکھتے ہیں، ایک تہذیب سے وابستہ ہیں اور اپنے عقیدے و ثقافت کے ساتھ واضح کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے عقیدے و ثقافت کو خطرے میں دیکھ کر اس کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی جنگ کا طریق کار درست ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے۔ لیکن اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان کی جنگ ایک عقیدے کے لیے ہے، تہذیب و ثقافت کے لیے ہے اور اس کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کے لیے ہے۔
    • دوسری حقیقت جسے مغرب جان بوجھ کر سامنے نہیں آنے دے رہا یہ ہے کہ مبینہ دہشت گردوں کی ساری جنگ ردعمل ہے۔ اور یہ ری ایکشن عالم اسلام کے بارے میں مغرب کی اس معاندانہ روش کا نتیجہ ہے جو وہ گزشتہ دو صدیوں سے مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ مغرب نے خلافت عثمانیہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اور اس کے بعد فلسطین، عراق اور افغانستان میں جو کچھ کر رہا ہے اس کا ردعمل اور ری ایکشن آخر کسی نہ کسی صورت میں تو سامنے آنا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ فلسطین میں گزشتہ پون صدی سے ہو رہا ہے یہ اگر کسی مغربی قوم کے ساتھ ہو تو اس کا ردعمل بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔

    اس لیے جب تک ان زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جنہیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ان کے عقیدہ و ثقافت کا احترام نہیں کیا جاتا، اور جب تک مغرب عالم اسلام کے خلاف اپنے منفی طرز عمل اور معاندانہ روش سے باز نہیں آتا، محض مفروضوں کی بنیاد پر اس مبینہ دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

  5. پانچویں گزارش یہ ہے کہ افغانستان سے جب روسی فوجیں واپس گئیں اور افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی، اس وقت پاکستان میں میرے اندازے کے مطابق پچاس ہزار کے لگ بھگ ایسے مجاہدین موجود تھے جنہوں نے افغانستان کے جہاد میں حصہ لیا تھا۔ وہ جذبۂ جہاد سے سرشار تھے، جنگ کی عملی تربیت حاصل کر چکے تھے اور ہر قسم کے ہتھیار چلانا جاتے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب روس کے خلاف جنگ ختم ہوگئی اور یہ ہزاروں مجاہدین پاکستان اپنے گھروں میں واپس آگئے تو قومی سطح پر ان کے لیے کیا پالیسی طے کی گئی؟ میں نے اس وقت دو تین اہم قومی لیڈروں کو اس جانب توجہ دلائی تھی کہ ان مجاہدین کے بارے میں کوئی قومی پالیسی طے کر لی جائے اور انہیں کسی کام پر لگا دیا جائے ورنہ ان کے مختلف گروپ اپنا اپنا کام اور اپنا اپنا راستہ خود طے کریں گے اور اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ میرے نزدیک یہ اس وقت حکومت کا اور قومی سطح کی قیادت کا فریضہ تھا جس سے غفلت کی گئی اور اس کا نتیجہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل اس سلسلہ میں ہمارے سامنے مثال موجود ہے، قیام پاکستان سے قبل سندھ میں حروں کی مسلح فورس موجود تھی، یہ مجاہدینِ آزادی تھے جو برطانوی استعمار کے خلاف برسرپیکار تھے اور مسلح طور پر چھاپہ مار کاروائیاں کیا کرتے تھے۔ ان کی قیادت موجودہ پیر صاحب آف پگاڑا شریف کے والد محترم حضرت پیر سید صبغت اللہ شہیدؒ پیر آف پگاڑا کر رہے تھے۔ یہ مسلح اور چھاپہ مار تحریک تھی۔ حضرت پیر صبغت اللہ راشدیؒ کو اسی جرم میں باغی قرار دے کر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تھا اور انہیں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔ اسی لیے سندھ کی قومی تاریخ میں انہیں ’’آزادی کا ہیرو‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن جب پاکستان قائم ہوا تو حروں کے ان مسلح دستوں کو پاک فوج کا حصہ بنا کر سنبھال لیا گیا اور ان کی صلاحیتوں کے استعمال کا رخ متعین کر دیا گیا۔ اسی طرح اگر افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان کے ان مجاہدین کے بارے میں، جنہوں نے جہاد افغانستان میں حصہ لیا تھا، قومی سطح پر کوئی پالیسی طے کر لی جاتی اور ان کے جذبات اور صلاحیتوں کا کوئی رخ متعین کر دیا جاتا تو یقیناً وہ حالات پیدا نہ ہوتے جو آج ہمارے سامنے ہیں۔
  6. اس سلسلہ میں چھٹی اور آخری گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں سب سے بڑا سوال خودکش حملوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے ہمارا موقف بالکل واضح اور دوٹوک ہے کہ خودکش حملہ ایک جنگی ہتھیار ہے جو حالت جنگ میں آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہتھیار عالمی جنگ میں جاپان نے استعمال کیا ہے، برطانیہ کے پولش پائلٹوں نے استعمال کیا ہے، اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر پاک فوج نے بھی استعمال کیا ہے۔ اس لیے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر اس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا لیکن پر امن علاقوں میں اور میدان جنگ سے ہٹ کر اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے جنگی ہتھیار ہیں کہ میدان جنگ میں ان کا استعمال درست ہے اور اس سے ہٹ کر اس کا استعمال درست نہیں ہے، یہی مسئلہ خودکش حملے کا بھی ہے۔

    اسی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان دستوری حوالے سے ایک اسلامی ریاست ہے۔ عملی طور پر کچھ بھی ہو لیکن اس کے دستور میں اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے اور پارلیمنٹ پابند ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی اور ملک کے مروجہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنائے گی۔ اس لیے پاکستان میں نفاذ اسلام یا کسی اور مطالبے کے لیے ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس حوالہ سے ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ سوات اور قبائلی علاقوں کے جو لوگ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا مطالبہ درست ہے بلکہ پورے پاکستان کا یہ حق ہے کہ حکومت ملک میں شرعی قوانین نافذ کرے اور اسلامی نظام کو عملاً بروئے کار لائے۔ نیز اس بات کو ضرور پیش نظر رکھا جائے کہ خاص طور پر سوات کے لوگوں سے اس حوالہ سے بار بار وعدہ خلافی کی گئی ہے بلکہ چند سال قبل نفاذ شریعت ریگولیشن کی صورت میں موجودہ عدالتی نظام پر ہی شرعی عدالتوں کا لیبل چسپاں کر کے ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر وہ اس وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کے خلاف ردعمل کے طور پر انتہا پسندی پر آگئے ہیں تو ان کا طریق کار غلط ہونے کے باوجود ان کی مجبوری کو سمجھنا چاہیے اور ان اسباب کو دور کرنا چاہیے جو حالات کو اس رخ پر لے آئے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter