قبرص کا بحران!

   
تاریخ : 
۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

قبرص کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جنہیں بین الاقوامی استعمار نے عالم اسلام کو الجھائے رکھنے کے لیے جنم دیا ہے۔ یہ مسئلہ کئی بار مسلح تصادم کا باعث بنا ہے اور آج بھی اس کے باعث ترکی اور یونان کے درمیان مسلح جنگ کے خطرات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔

قبرص بحیرہ روم کا ایک بڑا جزیرہ ہے جہاں یونانی عیسائی اور ترک مسلمان آباد ہیں۔ عیسائی اکثریت میں ہیں،مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے درمیان چپقلش مدت سے چلی آرہی ہے۔ ۱۹۶۰ء میں برطانیہ کے قبضہ سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد پادری میکاریوس کی صدارت میں آزاد حکومت قائم ہوئی اور آئین میں مسلمانوں کو نائب صدر کے عہدہ کے علاوہ پارلیمنٹ میں ۳۰ فیصد نمائندگی، سول اور فوجی ملازمتوں میں ۴۰ فیصد حصہ اور خارجی و اقتصادی امور میں حق استرداد دیا گیا۔ یونان نے متعدد بار کوشش کی کہ قبرص کی آزادی کو ختم کر کے اس پر قبضہ کر لیا جائے اور مسلمانوں کو آئینی تحفظات سے محروم کر دیا جائے، لیکن اس کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔

اب قبرص میں موجود یونانی فوجیوں نے صدر میکاریوس کی حکومت کا تختہ الٹ کر ترک مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے تاکہ قبرص کو یونان میں ضم کیا جا سکے۔ ترکی حکومت نے پہلے سفارتی سطح پر میکاریوس کی آئینی حکومت کو بحال کرانے اور مسلمانوں کا قتل عام بند کرانے کے لیے کوشش کی مگر اس میں ناکامی کے بعد اس نے جزیرہ میں ترک فوجیں اتار دیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترک افواج نے قبرص کے دارالحکومت نکوسیا پر قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ ان مسلمان آبادیوں کا رخ کر رہی ہیں جہاں یونانی افواج مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔

ادھر سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی ہے جسے ترکی حکومت نے قبول کر لیا ہے اور اعلان کیا ہے ہے کہ فوجی کارروائی سے اس کا مقصد امن و امان کو بحال کرنا اور میکاریوس کی آئینی حکومت کو تحفظ دینا تھا جو پورا ہو چکا ہے۔

ہم بہادر ترک افواج کو اس کامیابی پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں اور ہمیں بے حد مسرت ہے کہ ہمارے بہادر ترک بھائی قبرص کی مسلم اقلیت کے تحفظ اور جزیرہ کی آئینی حکومت کی بحالی کی منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس موقع پر ہماری دلی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter